بطور تاریخ کےطالب علم میرا پسندیدہ مشغلہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہے،مجھے جب بھی اپنی روزمرہ کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں تومیں ماضی میں وقوع پذیر ہونیو الے مختلف واقعات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، آج جب اپنا یہ ہفتہ وار کالم تحریر کرنے لگا تومیں نے فیصلہ کیا کہ مجھے رواں ماہ اگست میں پیش آنے والے ان مختلف ملکی وعالمی واقعات کو اجاگر کرنا چاہئے جنہوں نے انسانی تاریخ کا رُخ موڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔میری نظر میں گزشتہ صدی کے بڑے واقعات میں سے ایک جنگ عظیم دوئم ہے جسکی تباہ کاریوں نے خدا کی دھرتی کو لہولہان کردیا، عالمی طاقت کی غلبے کی کوششوں کے نتیجے میں جانی ،مالی و دیگر نقصانات کا تاحال درست تخمینہ نہیں لگایا جاسکا ہے، جنگ عظیم دوئم کے دوران جاپان کی فوجوں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے تھے کہ انہوں نے ہزاروں کلومیٹر دور امریکہ کے اندرپرل ہاربر کو کامیابی سے نشانہ بنا ڈالا، تاہم چھ اور نو اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا نے کا اقدام دوسری جنگ عظیم کے اختتام کا باعث بنا،ہولناک ایٹمی حملے نے جاپانی قیادت کے حوصلے پست کردیے اور پھر 15اگست کو جاپانی شہنشاہ نے ہتھیار ڈالنے کا باضابطہ اعلان کردیا، جاپان کے شکست تسلیم کرتے ہی عالمی تاریخ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں، عالمی طاقتوں کے ایماء پرنئے ملک عالمی نقشے پر اُبھرنے لگ گئے، بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مدنظر مختلف نوآبادیاتی ممالک بشمول برطانوی ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگ گئیں۔ ہر سال چودہ اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہوئے کبھی یہ سوال بھی کیا جاتاہے کہ جب دونوں ممالک ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان چودہ اگست اور بھارت پندرہ اگست کو اپنا یومِ آزادی مناتا ہے؟اس حوالے سے بی بی سی اردو نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بہت دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آزادی کے پہلے سال کسی کو پاکستان کے یومِ آزادی پر ابہام نہیں تھا، تاہم 29جون 1948ء کو کراچی میں وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات 14 اگست 1948 ء کو منائی جائیں۔ اسی طرح مجھے یاد ہے کہ 18اگست 2008ء کو صدر پرویز مشرف نے سیاسی قیادت کی جانب سے مواخذے کے خوف سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کردیاتھا، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا شمار پاکستان کے طاقتور ترین حکمرانوں میں ہوتا تھا، وہ اپنے دورِ اقتدار میں بلا شرکت ِ غیرے سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے تھے، تاہم جس سیاسی بصیرت، دانشمندی اور سُوجھ بُوجھ سے صدر مشرف کو چلتا کیا گیا ، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک میں جمہوریت کے استحکام اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کی انتھک جدوجہد کا سنہرا باب ہے۔ دو سال قبل اگست کے مہینے میں ہمارے خطے میں ایک بڑی تبدیلی کابل میں طالبان کی واپسی کی صورت میں رونما ء ہوئی ، بلاشبہ امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے بیس سال میں افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کئے، انھیں امید تھی کہ انخلا ء کے بعد امریکی تربیت یافتہ افغان سیکورٹی ادارے طالبان کی پیش قدمی کو روک لیں گے، تاہم اگست 2021ء کی آمد تک طالبان دیہی اضلاع کا کنٹرول سنبھال چکے تھے اور پھر پندرہ اگست کو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے دارالحکومت کابل پہنچ گئے جہاں انکی آمد کی اطلاع پاکر افغان سیاسی قیادت نے بیرون ملک جانے کو ترجیح دی۔عالمی میڈیا کے مطابق رواں برس افغانستان میں طالبان حکومت نے اقتدار میں واپسی کی دوسری سالگرہ کے موقع پر پندرہ اگست کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا، اقتدار میں واپسی کے دو سال مکمل ہونے پر امارت اسلامیہ افغانستان کے سفیدجھنڈے پورے ملک میں لہرائے گئے۔ میری نظر میں جب نوے کی دہائی میں طالبان افغانستان میں اقتدار میں آئے تھے تو پاکستان کامغربی بارڈر محفوظ ہو گیا تھا،بدقسمتی سے آج ماضی کی نسبت پاک افغان سرحدی صورتحال قدرے مختلف اور پیچیدہ ہے ۔ ہماری قومی تاریخ میں اگست کے مہینے کی سترہ تاریخ اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ1988ء میں اِس دن صدر جنرل ضیاء الحق اور امریکی سفیررافیل کا ایک پُراسرار ہوائی حادثے میں جان کی بازی ہارنا ایک معمہ ہے،میں سمجھتا ہوں کہ صدر ضیاء کے دورِ آمریت کے دوران ہمارے معاشرے میں ریاستی سطح پر رونماء ہونے والی سماجی تبدیلیوں کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں،ملکی منظرنامے پر شہید بھٹو کی عظیم صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی سطح پر وسیع پذیرائی بھی ہماری قومی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)