یسریٰ اصمعٰی
آہ ۔۔ کس قدر دردناک ہیں یہ تفصیلات، اس نے تھکے تھکے انداز میں لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے سوچا۔ غالباً آن لائن نیوز ویب سائٹ سے کسی خاص خبر کے مطالعے کے بعد یہ تاثرات تھے اس کے۔ کرسی کی پشت پر ٹیک لگائے وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں تھی۔ میرے وطن تیری فضا کو یہ کون لوگ پراگندہ کر رہے ہیں؟ تعلیمی اداروں کا تقدس تو یوں پامال نہ ہوتا ،استاد تو روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں وہ کیسے اس درجے گر سکتے ہیں۔
بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے اسکینڈل نے جیسے اسے اندر تک گھائل کر دیا۔ دکھ اور بے یقینی کی کیفیت طاری تھی اس پر ۔ اپنے سامنے ہوتی وطن عزیز کی بڑھتی معاشی بدحالی، سیاسی افراتفری تو بوجھل رکھتی ہی تھی دل کو لیکن یہ روز بہ روز گرتی معاشرے کی اخلاقی اقدار نے تو اس جیسے کئی محب وطن افراد کی روح تک زخمی کر دی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ گرتی معیشت قابو میں آ سکتی ہے ،مالی کرپشن پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے لیکن گرتی ہوئی معاشرتی اقدار اوراخلاقی روایات کی تنزلی اگر ایک دفعہ کسی قوم کا پیچھا لے لے تو اس کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرکے ہی چھوڑتی ہے۔ ’’ہم مائیں ،ہم بہنیں ، ہم بیٹیاں ۔۔۔۔قوموں کی عزت ہم سے ہے‘‘۔
ماضی کا خوبصورت ملی نغمہ اداس لہجے میں گنگناتے ہوئے اس نے سوچا نپولین ٹھیک ہی تو کہتا تھا ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘۔ کمی کہاں رہ گئی ؟ کیا ہم اس نسل کو اچھی مائیں نہیں دے سکے ؟ وہ خود سے مخاطب تھی۔ شرم و حیا عزت و وقار عورت کا زیور ہے، بہنیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہیں ، راہ چلتی عورتوں کودیکھ کر نظریں جھکا لینا درحقیقت مردانگی ہے۔ یہ اسباق تو گھروں میں ابتدا سے بچوں کی گھٹی میں ڈالے جاتے تھے، خراب اخلاق و کردار کے لوگوں سے نفرت دلائی جاتی تھی، محلے میں اگر کسی گھر کی ذرائع آمدن میں حرام کمائی کی آمیزش کا شک ہوتا تو اس گھر کاپانی بھی پینے سے کراہت دلائی جاتی تھی، محلے کےاوباش نوجوانوں کو گلی کا ہر بزرگ دھتکارتا تھا۔
اب تو جیسے رُت ہی بدل گئی۔ برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیا گیا تو معاشرہ اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہونا ہی ہےاور ہوبھی رہا ہے۔ انسانی شکل میں بھیڑیے تو ہر دور میں تھے لیکن شاید اس وقت ماؤں کی کڑی نظریں باپ کی سکھائی زمانے کی اونچ نیچ اولاد کو کئی گڑھوں میں گرنے سے بچا لیتی تھی۔ اب شاید والدین نے تربیت سے زیادہ معیار زندگی کو بلند کرنا مطمع نظر بنا لیا، ترجیحات کی اس تبدیلی نے زمانے کے اطوار بدل دیئے۔ گلوبل ولیج میں سانس لیتی الیکڑانک ہتھیاروں سے لیس یہ نسل اندر ہی اندر تنہائی کا شکار ہے ۔درحقیقت ، تربیت کا فقدان ،تنہائی ، اچھائی اور برائی کی تمیز سے دور، ساری دنیا تک رسائی تینوں عوامل نے مل کر ہمارے بچوں کو عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
انہیں دنیا کھوجنے کی جستجو ہے لیکن کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں، غلاظت سے بھرے راستوں پر دامن بچا کر اور پائنچا اٹھا کر چلنا سیکھایا نہیں گیا، لائف اسٹائل ، کلاس ، اسٹیٹس کی چمکتی دمکتی اصطلاحات تو ان کے سامنے ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے لیے صاف ستھرا راستہ سمجھانا تو شاید کہیں رہ گیا۔ وہ بے چین ہو کر جھٹکے سے کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی، کھڑکی کے اوس زدہ ٹھنڈے شیشے سےسر ٹکائے، اس کی نظریں طلوع سحر کے آثار پر تھیں ، دور کہیں اُفق پر سورج اپنی کرنیں بکھیرنےکی تیاری میں تھا وہ سوچ رہی تھی،رات کے بعد صبح اُمید کا پیغام لاتی ہے۔
سورج کی ہر کرن اندھیروں کو شکست دینے کے لیے راستہ سجھاتی ہے، وہ پرسکون ہو گئی یہ سوچ کر ، اپنے حصے کی کرن اس کےہاتھ لگ گئی تھی ۔وہ بھی تو ایک ماں کے ساتھ استاد بھی ہے۔ دو سو ذہن اس کے ہاتھ میں ہیں یہ فقط دو سو ذہن تو نہیں یہ درحقیقت دو سو خاندان ہیں، وہ طلوع ہوتے سورج سے وعدہ کر رہی تھی کہ ان ذہنوں کو ہتھیار بنائے گی، اس تاریکی کو شکست دینے کے لیے جو اس کے پیارے وطن کی پاکیزہ فضاؤں کو پراگندہ کرنا چاہتے ہیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ایک بار پھر وہ زیر لب گنگنا رہی تھی لیکن اب لہجے میں امید اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔