• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیریں ترنم

سادگی وہ بنیادی وصف ہے جو ملکی تعمیر و ترقی میں خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں راحت و سکون کا باعث بنتی ہے۔ اگر خوراک، پوشاک، سامان ِزندگی، رہن سہن اور ہر موقع پر بے جا تکلفات سے بچا جائے تو سادہ زندگی گزارنے میں راحت ہی راحت ہے۔ سادگی اسلامی تہذیب کا جوہر ہے۔ انسانی ضروریات کو جتنا بھی بڑھایا جائے اس میں اضافہ ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔ انسانی ضروریات اس قدر لامحدود ہو جاتی ہے کہ انہیں پورا کرنا انسانیت کے بس سے باہر ہو جاتا ہے، لیکن خود پر جبر کرتے ہوئے ان میں صرف ضروری حاجات پوری کرنا اور باقی کو ترک کرنا ہی دراصل زندگی ہے۔

وہ بڑا اچھا وقت تھا جب لوگ بھی سادہ اور ان کی زندگی بھی سادگی اور کفایت شعاری والی تھی۔ نمود و نمائش نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ گھر کے تمام خرچے بھی پورے ہوتے تھے۔ تقریبات اس دور میں بھی ہوتی تھیں،بلکہ گھروں میں دعوتوں کے پکوان پکائے جاتے تھے۔ خواتین گھر میں نت نئے لباس خود تیار کرتی تھیں۔ زندگی نہایت خوبصورت طریقے سے گزر رہی تھی لیکن اچانک ایساکیا ہو اکہ ا زمانے نے اپنا رنگ روپ ہی بدل ڈالا۔ مادیت پرستی کے دور میںسادگی کی جگہ خود نمائی نے لے لی۔ 

ہر طرف پیسہ ہی پیسہ چھا گیا۔ اب وہی معزز مانا جاتا ہے جو زیادہ روپیہ خرچ کرتا ہے۔ اس لئے تو آج فضول خرچی ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ آج ہر شخص اس نفسیاتی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہے کہ اسے دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ پیسے کا بے جا ضیاع اسٹیٹس سمبل بن چکا ہےاور جھوٹے نمائشی رویے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ عورت ہی زیادہ فضول خرچا کرتی ہیں، کیوں کہ خود نمائی کی عادت عورت میں زیادہ ہوتی ہے۔ خاندان میں یا احباب میں کوئی تقریب یا شادی آجائے تو گھر کا سارا بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے اور خاتون خانہ کے مطالبات زور پکڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔

اس لئے عورت کو سب سے بڑا فضول خرچ ہونے کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ اکثر لوگ سردیوں میں شادی کی تقریبات کرنا پسند کرتے ہیں ،کیوں کہ میک اپ خراب ہونے کا خطرہ،سخت سردی میں سوئیٹر سے بے نیاز لڑکیاں، خواتین آرائش و زیبائش، مہنگے ترین لباس فاخرہ میں سردی سے ٹھٹھرتی، سکڑتی، بلند بانگ قہقہے بکھیرتیں تو مرد حضرات بھی کڑھائی، تلے، دبکے ،موتی سے سجے بنے ریشم کے کرتے، شیروانیاں، قیمتی ملبوسات میں، عورتوں کی سی مشابہت اختیار کئے ہوتے ہیں۔ اس فیشن پرستی نے ایسی وبائی مرض کی شکل اختیار کی ہے کہ سادگی، سیرت، کردار کی حقیقی خوبصورتی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

شادی کے ابتدائی دنوں میں قدرے فضول خرچی ایک فطری امر ہے۔ آپ اپنی خواہشات اور احساسات کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔ لیکن بہتر یہی ہوتاہے کہ دونوں فیملیز اپنی اپنی مالی پوزیشن ابتدا ہی میں ایک دوسرے پر واضح کر دیں، تاکہ بعد میں کوئی رنجش پیدا نہ ہو نے پائے۔ شادی کے موقعے پر خرچ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے جذبات اور ضروریات کا پوری طر ح خیال رکھاجائے ۔ یہ عملی سوچ ان کی طویل ازدواجی زندگی میں ایک مضبوط بنیاد کی تعمیر کا سبب بن جائے گی اور اس کے نتائج بڑے دور رس ہوں گے۔

یہ ایک عام رجحان ہے کہ جب کبھی کسی پارٹی یا تقریب وغیرہ پر خرچہ کرنے چلتے ہیں تو اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ رجحان کچھ عرصے بعد ہی ذہنی کرب اور افسوس کا باعث بن جاتا ہے، کیوں کہ اپنی جھوٹی شان دکھانے کی خاطر وہ فرد قرضوں کے جال میں جکڑتا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال سے بچنے کی خاطر بہتر یہی ہے کہ جھوٹی انا اور ظاہر ی شان و شوکت کے اظہار سے گریز کیا جائے اور اتنے ہی پاؤں پھیلائے جائیں جتنی کہ چادر میں گنجائش ہو۔ اسی طرح آپ پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔خواتین کا کردار اس معاملے میں مردوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔