کراچی( ثاقب صغیر /اسٹاف)کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف شروع کئے گئے "کراچی آپریشن" کو آج (منگل )دس سال مکمل ہو گئے۔گذشتہ برس (سال 2022) شہر میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں 120سے زائد شہری قتل کئیے گئے جبکہ 2022میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کی82ہزار713وارداتیں ہوئیں۔5ستمبر 2013 کو شروع کیے گئے کراچی آپریشن سے قبل شہر میں بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ،اغواہ برائے تاوان ،بھتہ خوری کے واقعات عام تھے۔سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز،لیاری گینگسٹرز ،فرقہ وارانہ اور کالعدم جماعتوں کے کئی گروپس شہر میں فعال تھے۔کراچی کی رونقیں مانند پڑ گئی تھیں،سر شام ہی لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔وفاقی حکومت نے کراچی میں جب آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تو کراچی پولیس کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا تاہم پولیس،رینجرز اور انٹیلیجنس ایجنسییز کی مدد سے آپریشن میں کئی کامیابیاں حاصل کی گئیں اور ان اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں شہر کا امن بحال ہوا۔پولیس ،رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن کے دوران قربانیاں دیں اور پولیس اور رینجرز کے متعدد افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔کراچی آپریشن میں کالعدم تنظیموں ٹی ٹی پی ،لشکر جھنگوی ،القاعدہ بر صغیر، انصاالشریعہ اور داعش کے علاوہ لیاری گینگ وار اور کالعدم قوم پرست تنظیموں بی ایل اے،بی ایل ایف ایس آر اے کے کئی کمانڈر ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ کئی کو گرفتار بھی کیا گیا۔گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو بھی گرفتار کیا گیا۔آپریشن کے دوران جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی کامیابیاں حاصل کیں وہیں اس دوران بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوئے۔سال 2014 می کراچی ائیر پورٹ ،2018 میں چینی قونصل خانے،2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج ،2022 میں کراچی یونیورسٹی،2023 میں کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں نے حملے کئیے۔مئی 2015 میں صفورا کے قریب آغا خانی جماعت کی بس کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس میں 45 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،جامعہ کراچی کے دو اساتذہ ڈاکٹر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی اور پروفیسر شکیل اوج سمیت متعدد اساتذہ کرام اور علمائے کرام کو بھی شہید کیا گیا۔معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال امجد صابری کو بھی قتل کیا گیا۔ایس پی سی آئی ڈی اسلم خان المعروف چوہدری اسلم کو بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔مارچ 2015 میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا اور وہاں سے جیو ٹی وی کے شہید رپورٹر ولی خان بابر کے قتل میں ملوث ملزمان سمیت کئی ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔پولیس کی جانب سے کئیے گئے مقابلوں میں جہاں متعدد ملزمان کو ہلاک اور زخمی کیا گیا وہیں کئی مقابلوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوالات بھی کھڑے کئیے اور کئی مقابلوں کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال 2013 میں شہر 2789 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے،سال 2014 میں 1823،سال 2015 میں 995،سال 2016 میں 667،سال 2017 میں 583،سال 2018 میں 461،سال 2019 میں 491،سال 2020 میں 508،سال 2021 میں 450،سال 2022 میں 531 اور سال 2023 میں اب تک 376 افراد مختلف واقعات میں قتل کئیے گئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2013 میں ٹارگٹ کلنگ میں 509 افراد قتل کئیے گئے،2014 میں 189،سال 2015 میں 159 ،2016 میں 45 ،سال 2017 میں 23 ،سال 2018 میں 18،سال 2019 میں 12،سال 2020 میں 8،سال 2021 میں 2 ،سال 2022 میں 4 اور سال 2023 میں اب تک ایک شخص کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔کراچی آپریشن میں پولیس کے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی )نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں اور دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث بیشتر ملزمان کو ہلاک یا گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔گو کہ کراچی پولیس اور رینجرز کی جانب سے "کراچی آپریشن"کی اصطلاح کا استعمال اب نہیں کیا جا رہا۔آپریشن کا کریڈٹ جہاں مسلم لیگ (ن ) کی وفاقی حکومت کو دیا جاتا ہے وہیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے "کراچی بے امنی کیس" کے دوران دئیے گئے ریمارکس اور فیصلوں کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔