مسلم لیگ (ن) نے بالآخر میاں محمد نواز شریف کی آمد کی حتمی تاریخ دے دی ہے، وہ 10 اکتوبر کو لندن سے پاکستان پہنچ رہے ہیں اس وقت مسلم لیگ کے پاس چہرہ نمائی کیلئے نواز شریف بیسٹ آپشن ہیں اگرچہ پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلوں کا سارا بوجھ مسلم لیگ (ن) کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا چنانچہ بجلی کی قیمتوں میں جو ہوشربا اضافہ ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین اور بدترین اضافہ ہے ،لوگ نہیں جانتے آئی ایم ایف کیا بلا ہے اور اگر معاہدہ نہ کیا جاتا تو عوام پر اس سے بھی برا وقت آسکتا تھا، انہیں تو صرف یہ پتہ ہے کہ بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد ان کے پاس بچتا کچھ نہیں ہے چنانچہ گھر گھر ماتم کی فضا ہے کچھ بدنصیب تو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کر چکے ہیں، اس طرح کی صورتحال میں کوئی منظم سیاسی پارٹی ہوتو وہ کچھ نہ کچھ عوامی جذبات کو ایک حدتک نارمل کر سکتی ہے مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی تنظیمی صورتحال اس وقت مثالی نہیں ہے، وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہے اور مجھے یہ لگتا نہیں کہ وہ انتخابات کو ایزی لے رہی ہو مگر کچھ علامتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پارٹی کے بہی خواہوں اور ووٹروں کے متعلق یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ تو اپنے ہیں انہوں نے کہاں جانا ہے ۔سعادت حسن منٹو کے الفاظ ہیں ’’یہ تو اپنا خوشیا ہے ‘‘ سو اس جملے کے مصداق اپنے ووٹروں اور اپنے ان بہی خواہوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو برس ہا برس سے ان کے سپورٹر رہے ہیں اور بد زبانوںسے گالیاں سنتے آ رہے ہیں اس کے علاوہ پارٹی کے صف دوم کے رہنما پارٹ ٹائم سیاست کر رہے ہیں وہ دو چار مہینے بعد عوام کے درمیان آتے ہیں چہرہ نمائی کرتے ہیں اور اس کے بعد اگلے چند مہینوں کیلئے سلیمانی ٹوپی پہن لیتے ہیں اور یوں نظر نہیں آتے۔
اس وقت پارٹی کی واحد امید نواز شریف سے وابستہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اصولوں کی خاطر وزارتِ عظمیٰ سےہاتھ دھوئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، خوفناک قید تنہائی کا سامنا بھی کیا جس میں قیدی کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت دن ہے یا رات ، جو اہلکار اس نوع کے قیدی کے لئے کھانا لیکر آتا ہے اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ قیدی سے ہم کلام نہ ہو نہ اس سے بات کرے اور نہ اس کی کسی بات کا جواب دے، کسی کمزور اعصاب کے حامل شخص کے لئے یہ صورتحال ناقابل برداشت بھی ہو جاتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کو کراچی سے لاہور ہتھکڑیاں لگا کر اور انہیں سیٹ سے باندھ کر لایا گیا جب اس شخص کے عزم کو شکست نہ دی جاسکی تو مضحکہ خیز مقدمات میں اس کو ایسی سزائیں سنائی گئیں جو غیر انسانی تھیں ۔انہیں سات سال کے لئے جدہ جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پی ٹی آئی ہی کے ڈاکٹروں نے رپورٹ دی کہ پلیٹ لیٹس اس حد تک کم ہیں کہ مریض کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، جس پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی، نواز شریف کی بدترین کردار کشی کی گئی، بے ہودہ اور بے تکے الزامات پر انہیں نااہل قرار دیا گیا اور الزام کرپشن کے نہیں، اقامہ اور اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے تھے، اوپر سے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور انکے کارندوں نے بدتمیزی کی حد کر دی اور انکے خلاف نازیبا اور گھٹیا پروپیگنڈے کو آخری حد تک لے گئے، لندن میں ان کے گھر کے باہر تھرڈ کلاس نعرے لگائے گئے اور میں اس بات پر حیران ہوں کہ لندن پولیس نے کسی کے گھر کے باہر اس غنڈہ گردی کی اجازت کیسے دی جبکہ ہمسائے بھی احتجاج کرتے رہے کہ ان حرکتوں سے ان کی نقل و حرکت مشکل ہوگئی ہے۔قیام امریکہ کے دوران ہم دوست اپنے گھر کے باہر زور زور سے ہنس رہے تھے کہ اچانک پولیس کے ہارن سنائی دیئے، اس کے ساتھ ہی پولیس کے اہلکار بہت تیزی سے باہر آئے اور ہمیں ہینڈز اپ کرا دیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کیا گیا۔ اس پر ہمیں بتایا گیا کہ سامنے والے گھر میں ایک بڑھیا رہتی ہےاس نے فون کیا کہ کچھ بدمعاش یہاں جمع ہیں اور تخریب کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ہمارے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے آج بھی سوچتا ہوں کہ لندن اور امریکہ کی پولیس میں سے بہتر کارکردگی کس کی ہے!۔ خیر دفعہ کریں اس معاملے کو مگر کرپشن کے غیر موجود حقائق پر خاقان عباسی کا یہ بیان کافی ہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ نواز شریف نے کبھی کسی بھی دور میں کرپشن نہیں کی۔ عباسی صاحب کا حوالہ میں یوں دے رہا ہوں کہ وہ پارٹی کی ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں اور اس کے باوجود وہ کلمۂ حق کہنے پر مجبور ہیں۔
میری بات کچھ لمبی ہوگئی اور نواز شریف کے دور اقتدار میں عوام کی سہولت کیلئے جو انتہائی مثبت کام کئے گئے اس کا بیان رہ گیا۔ دراصل اس کی تفصیل کیلئے پورا دفتر چاہیے، اس کی جزئیات میں کسی دوسرے کالم کے لئے چھوڑتا ہوں۔ ابھی تک میں نے جو لکھا ہے وہ دراصل تمہید ہے اس بات کی کہ مسلم لیگ (ن) صرف نواز شریف پر نہ رہے بلکہ خود بھی کچھ ہل جل کرے۔ ان کی آمد تک پوری پارٹی کومتحرک ہونا چاہیے اور کسی کو گرانے اور کسی کو اٹھانے کی بجائے متحد ہو کر الیکشن کی تیاری کرے۔ یہ مرحلہ اب کے آسان نہیں ہے، اس کیلئے محنت شاقہ اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے کہ خوبصورت شاعر ساقی فاروقی کے بقول ’’جان محمد خان سفر آسان نہیں ہے‘‘۔