• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کی حکومت عدلیہ کو کشمیریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے، مقررین

برسلز/ جنیوا (حافظ انیب راشد) ورلڈ مسلم کانگریس کی جانب سے یو این ایچ آر سی کے 54ویں اجلاس کے موقع پر منعقد ہونے والے ایک ویبینار میں جسے یونیورسل ہیومن رائٹس کونسل نے سپانسر کیا تھا ،میں اظہار خیالات کرتے ہوئے ممتاز انسانی حقوق کے کارکنوں، ارکان پارلیمنٹ اور سفارت کاروں بشمول الطاف حسین وانی چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز ، بیرسٹر عبدالمجید ترمبو، تمیم حسن جسٹس فار آل کینیڈا، امریکہ سے انسانی حقوق کی وکیل، اے پی ایچ سی کے نمائندے سید فیض نقشبندی، ایڈووکیٹ پرویز احمد شاہ، رکن سری لنکا پارلیمنٹ وسانتھا یاپا بندارا اور دیگر نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف عدلیہ کو ہتھیار بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہند مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے میں ہر قسم کے اختلاف رائے کو کچل دینے کی مذموم کوششیں کر رہی ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اختلافی آوازوں کو دبانے کیلئے عدلیہ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کشمیری قیدیوں کے منصفانہ ٹرائل سے انکار بھارتی عدلیہ کی غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ اس کی ساکھ پر بھی بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، انسانی حقوق کے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین سمیت سیمینار کے مقررین نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 10کا حوالہ دیتے ہوئے کہا UDHR کے مطابق، ہر قیدی کو غیر جانبدارانہ اور عوامی سماعت کا حق حاصل ہے جب اس کی یا اس کے حقوق خطرے میں ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ منصفانہ ٹرائل کا حق ، ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انسانی حق اور انصاف اور جمہوریت کا ایک ناگزیر ستون ہے۔ مختلف جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کی المناک حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ منصفانہ ٹرائل، جو ہر نظربند کا بنیادی حق ہوتا ہے، کشمیری سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے اس حق کو مسترد کر دیا گیا۔ سیاسی رہنمائوں کی غیر قانونی نظربندی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے مرکزی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انہیں جیلوں میں سڑنے کیلئے چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کشمیری قیدیوں کو 5اگست 2019سے پہلے اور اس کے بعد گرفتار کیا گیا ہے انہیں عدالت میں اپنا دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا گیا جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عجلت میں فیصلہ سنانے والے ججز، زیادہ استغاثہ یا پولیس افسران جیسا برتاؤ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جج ایک یا دوسرے فریق کے وکیل کے طور پر کام نہیں کر سکتے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیری قیدیوں کے معاملے میں بھارتی عدالتوں کے جج انصاف کی فراہمی کے لیے درکار غیر جانبداری کی ڈگری کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پینلسٹس نے کہا کہ ثبوت کا بوجھ صرف اور صرف استغاثہ پر ہے لیکن بہت سے معاملات میں کشمیری نظربندوں کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی عدلیہ کی طرف سے کشمیری قیدیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک بھارت میں انصاف کے گرتے ہوئے نظام کے بارے میں کھل کر اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کشمیری قیدیوں کے منصفانہ ٹرائل سے انکار ہندوستان کی عدلیہ کی آزادی کے نقصان کو بھی واضح کرتا ہے جو حکمران حکومت کی خواہشات اور تصورات پر کام کرتی ہے‘‘۔ کشمیری رہنماؤں کے خلاف دہائیوں پرانے مقدمات کے دوبارہ کھولے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ خود سیاست کرتے نظر آنے والی بھارتی عدالتیں موجودہ حکومت کے خلاف نرمی اختیار کر چکی ہیں‘‘۔ مقررین نے عالمی برادری سے اس معاملے کا موثر نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی حکومت پر اثر انداز ہو کہ وہ کشمیریوں کے خلاف عدلیہ کو ہتھیار بنانا بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف عدالتی نظام کو ہتھیار بنانے سے نہ صرف بھارتی عدلیہ کی آزادی سلب ہوئی ہے بلکہ اس کے پورے نظام عدل پر بھی سیاہ سایہ پڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی عدلیہ کی جانبداری اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکامی کشمیری قیدیوں کی طویل نظربندیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ نوٹ کیا کہ 5اگست 2019کو اور اس کے بعد حراست میں لیے گئے کشمیریوں کی اکثریت بھارت کی جیلوں میں بند ہے۔

یورپ سے سے مزید