• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، بنچ مشاورت سے بننا شروع، چیف جسٹس کے پہلے دن تاریخی اقدامات، کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی TV پر براہ راست نشر، عوام کی پذیرائی

اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہلے دن تاریخی اقدامات، پہلے مقدمے کی بطور فل کورٹ سماعت کرنے والے چیف جسٹس بن گئے، کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی، پروٹوکول اور گارڈ آف آنر لینے سے انکار، بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی بھی نہیں لی، 1300سی سی کار استعمال کرینگے، صرف ضروری اور مختصر سیکورٹی ہوگی، چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھ دیا گیا، عوامی سطح پر چیف جسٹس کے اس اقدام کی پذیرائی ہو رہی ہے، اس سے قبل ایسی روایت نہیں ملتی، سپریم کورٹ میں بینچ مشاورت سے بننا شروع، عدالت عظمیٰ میں رواں ہفتے کے مقدمات کی سماعت کیلئے پانچ بینچز تشکیل دیدیئے گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو سینئر ترین ججوں، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کے حوالے سے مشاورت سے کام کریگی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ملک کو نقصان ہو مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے، ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کو تیار ہوں، مان لیں کہ ماضی میں غلطیاں کی ہیں ،انا، تکبر کو ایک طرف رکھ کر ملک کا بھی سوچنا چاہیے، ہم مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہیں لے رہے ہیں، عوام ہم سے 57ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں، بتایا جائے پورا قانون غلط تھا یا چند شقیں، وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی، سپریم کورٹ کے معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کا احتساب نہ ہو، مارشل لاء دور کے فیصلوں کا پابند نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی، اس میں غلط کیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کوئی ایسا قانون ہوسکتا ہے جو عدلیہ ریگولیٹ کرے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا رولز بنانے کا آئینی اختیار اس عدالت کو دیا گیا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کیا پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو بے اختیار کرسکتی ہے، عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران آٹھ رکنی بنچ کی جانب سے گزشتہ سماعت کے دوران اس قانون پر عملدرآمد پر جاری حکم امتناع کو برقرار رکھتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے جبکہ فریقین کو 25 ستمبر تک عدالت کے سوالوں کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن کی مشاورت سے روسٹر جاری کیا۔بینچ نمبر ایک میںچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس طہر من اللہ مقدمات کی سماعت کرینگے ۔بینچ نمبر دو میں جسٹس سردار طارق مسعود ،بینچ نمبر تین میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس شاہد وحید ،بینچ نمبر چار میں جسٹس یحیٰ آفریدی،جسٹس سید مظاہر علی اختر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر جبکہ بینچ نمبر پانچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی مقدمات کی سماعت کریں گے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل فل کورٹ بنچ نے پیر کے روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی تو ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی قومی الیکٹرانک میڈیا پربراہ راست نشر کی گئی،اٹارنی جنرل کے بیرون ملک روانہ ہو نے کی بناء پر کیس کی مزید سماعت ملتوی کی گئی ہے۔،دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں دیئے کہ میں نے آئین کے تحت حلف لیا ہے اور میں مارشل لا ء دور کے عدالتی فیصلوں کا پابند نہیں ہوں، کوئی اور ہو تو ہو؟ سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ )2023سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی نے دوران دلائل موقف اپنایا کہ یہ قانون عدلیہ کی آزادی کیخلاف اورچیف جسٹس کے انتظامی اختیار میں مداخلت کے مترادف ہے، چیف جسٹس نے ماضی میں آرٹیکل 184/3کے تحت سننے والے مقدمات کے فیصلوں سے ہونے والے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ریکوڈک کیس کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان پر چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہواتھا،عدلیہ کی اس آزادی کا کیا کرینگے جس سے پاکستان کی آزادی ہی داؤ پر لگ جائے ،آرٹیکل 184/3کے غلط استعمال پر ہزاروں آرٹیکلز لکھے گئے ہیں اور کہا گیاہے کہ عدالت نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا ہے، فاضل چیف جسٹس قاضی نے سوال اٹھایا کہ 2019سے اب تک چار سال ہوگئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی ہے،اس دوران زیر التواء مقدمات کی تعداد چالیس ہزار سے بڑھ کر ساٹھ ہزار ہوگئی ہے ،چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ فل کورٹ بلائے یا نہ بلائے؟چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ بینچ بنائے یا نہ بنائے ؟کیا یہ رولز تبدیل نہیں ہوسکتے ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1980میں رولز بنائے اور چالیس تک ا ن میں تبدیلی نہیں کی تو پارلیمنٹ نے قواعد تبدیل کردیئے ؟انہوںنے کہا کہ اگر چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ بلانے سے انکار کرے تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرے گی ؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے اپنااکام نہیں کیا اور سوئے رہے تو پارلیمنٹ نے کردیاہے ،جسٹس اعجازلاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا آئین کے تحت حاصل اختیار کے ذریعے بنائے گئے قواعد سادہ قانون کے ذریعے تبدیل کیے جاسکتے ہیں ؟جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھا یا کہ اگر عدالت نے پریکٹس پروسیجر ایکٹ کو درست قانون قرار دیدیا تو اس دوران جو فیصلے ہوئے ہیںان کا کیا مستقبل ہوگا؟جسکے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پر یہ اصول لاگو ہوگا کہ جو اہوا سو ہوگیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ متاثرہ فریق داد رسی کے لیے اپیل میں جاسکتا ہے،قبل ازیں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے، ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر سپریم کورٹ کے اس کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں، ایک درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنچ ملکر کام کرینگے،چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کون سی درخواست میں وکیل ہیں؟جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیاگیا ہے اور اس میں اپیل کیسے سنی جائیگی؟ اس پر آپ کیا دلائل دینگے؟خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں، اس کا کیا ہوگا؟چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، فل کورٹ اگر اس قانون کو درست قرار دے تو فل کورٹ کے اس فیصلے کیخلاف اپیل کون سنے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، جسٹس عائشہ اے ملک نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا؟ کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا؟ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہمیں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں،خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی ہے ،جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اسکی حمایت کرتے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ ججوں کے سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟جس پرخواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی ہے، ،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کہا کہتا ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟ آئین اور قانون دونوں کو الگ کیا گیا ہے ، اس پر آپکی کیا تشریح ہے؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور ؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپکے موکل کی کوئی ذاتی دلچسبی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا ہے یا پھر سپریم کورٹ کی؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے، چیف جسٹس کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے، آپ سے کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے تھی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے؟ پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا؟ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے کی گئی ہو تو وہ غلط ہے۔چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے؟خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروا سکتے ہیں،دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا توچیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے؟ آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سنیئر ججز کے ساتھ بانٹ دیاہے، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہواہے؟ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، باہر سے تو کوئی نہیں آیاہے، چیف جسٹس نے تو 2 سنیئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں ہے، آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کیلئے ہو سکتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے یہ کام کیا تو غلط ؟اگر ہم کر دیں تو درست ہو گا؟ امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب ہم جو بولے جا رہے ہیں آپ وہ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف یہ بتادیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لا لگانے والے آمر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کے لیے ریفرنڈم نہیں کرواسکتے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے قانون اچھا ہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کون ہوتی ہے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، 5 رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کے لیے 7 رکنی بینچ تشکیل دینے کا قانون بناسکتی ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز کی ہی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 3 ججوں کا بینچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے تو 17 ججوں کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟ دریں اثنا عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں دوپہر 3 بجے تک وقفہ کر دیا۔وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں؟ اس کی اہمیت کیا ہے، آپ نے دلائل درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کیے تھے وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کر دی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 کے دائرہ کار میں نہیں آتیں،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3 اور بنیادی حقوق دونوں دیکھنے ہیں،جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقینا سب کا حق ہے۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کے لیے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقینا سب کا حق ہے، فل کورٹ کے سامنے معاملہ ہے اس لیے مدعا سامنے رکھا ہے، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے، جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے، دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے پر کیا پہلے ہائی کورٹ نہیں جانا چاہیے تھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی ایک مقدمہ میں کہا تھا کہ ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا اور اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیاہے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے تھے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم علمی بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جاؤں تو مجھے کون روک سکتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید