• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی بار ججز کو کہتے سنا ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے، علی ظفر

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنما پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پہلی بار بھری عدالت میں جج صاحبان کو کہتے سنا کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے اگر اپیل کے ذریعہ ان غلطیوں کو درست کرنے کے طریقے پر ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کی کسوٹی کسی ادارے کی صوابدید نہیں آئین ہے۔

نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ سماعت براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ ججوں کی اکثریت سے ہوا ہوگا۔

سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ یہ اندازہ تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانا بہت بڑا اقدام ہے اس کیلئے انہیں جتنا سراہا جائے کم ہوگا۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ عدالتوں کی ورکنگ سے متعلق رولز بہت پرانے ہوچکے ہیں انہیں ری وزٹ کرنا ضروری تھا، آئین پارلیمنٹ کے ذریعہ عدالتوں کی ورکنگ سے متعلق رولز بنانے کی اجازت دیتا ہے، آئین کے مطابق پارلیمنٹ نے رولز نہ بنائے ہوں تو سپریم کورٹ اپنے تئیں رولز بناسکتی ہے، بار کونسلز اور کچھ ججز بھی چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بات کرچکے ہیں اسی لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ بنایا گیا، پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کی کسوٹی کسی ادارے کی صوابدید نہیں آئین ہے۔ سینئر رہنما پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بار کونسلز اور وکلاء برادری کا موقف ہے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے کیس میں اپیل کا حق ہونا چاہئے، اگر سپریم کورٹ سے کوئی غلط فیصلہ ہوجائے تولارجر بنچ کے پاس اپیل لے جانے کا آپشن ہونا چاہئے، عدالت میں بحث یہ ہورہی تھی کہ ایسے کیس میں اپیل کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے، اس کیلئے عام قانون سازی کافی ہے یا آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں ایسا ہی ایک معاملہ آیا تھا جس میں آئینی ترمیم کے بجائے قانون بنایا گیا تھا کہ ریویو کو اپیل میں تبدیل کردیا جائے، میرا موقف تھا کہ یہ اچھا قانون ہے لیکن اس کا نفاذ آئینی ترمیم کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے، پہلی بار بھری عدالت میں جج صاحبان کو کہتے سنا کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے اگر اپیل کے ذریعہ ان غلطیوں کو درست کرنے کے طریقے پر ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ سماعت براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ ججوں کی اکثریت سے ہوا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ آئندہ مقدمات کی فکسیشن کس طرح ہوگی، کون سا مقدمہ کس جج کے سامنے لگے گا یہ چناؤ نہیں ہونا چاہئے، ایک پالیسی بنائی جائے کہ کون سے بنچوں کے سامنے مقدمات کیسے فکس ہوں گے اور کون سے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر لگنے چاہئیں، جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت بتایا کہ نیپال میں عدالتی سال کے آغاز پر ہی ووٹنگ کے ذریعہ ایک سال کیلئے بنچوں کی تشکیل کردی جاتی ہے۔

سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ یہ اندازہ تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانا بہت بڑا اقدام ہے اس کیلئے انہیں جتنا سراہا جائے کم ہوگا، ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اپنے اختیارات میں شراکت کو تسلیم نہیں کیا، اس حوالے سے کوئی قانون بنایا گیا تو اسے روک دیا گیا۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ججوں کے ساتھ مشاورت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہتے ہیں، ججوں کے درمیان سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ ریگولیٹ کرنے کے معاملہ پر دو مختلف آراء ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واضح ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ میں کیا تبدیلیاں لانی ہیں،میزبان محمد جنید نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کیخلاف صدر مملکت عارف علوی نے مئی 2019ء میں ریفرنس دائر کیا تھا، انہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے صدر مملکت عارف علوی نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیا، اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ ان کے ساتھ کھڑی تھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھاتے ہی دو تاریخی فیصلے کیے، ایک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کو فوری سماعت کیلئے فل کورٹ کے سامنے مقرر کیا۔

اہم خبریں سے مزید