• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کب ہوں گے، صدر مملکت، عدلیہ سیاستدان، قانون دان، تجزیہ نگار کوئی یکسو نہیں، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کبھی اپنی روح کے مطابق پنپ ہی نہ سکی، گویا فیض صاحب کی اصطلاح کے مطابق ہنوز جمہوریت ’پابہ جولاں‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں جمہوریت کے ساتھ وہ کچھ ہوتا ہے جو یہاں سات عشرے گزرنے کے بعد بھی رواں بلکہ روا ہے۔ آمروں کی بات ہی کیا کہ یہاں تو جمہوریت کے ساتھ اس کے رکھوالوں نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی فُکاہیہ ڈرامے سے کم نہیں۔ جن ملکوں میں آئین کی پاسداری اور جمہوری عمل معمول کا حصہ ہے، وہاں ایسے ڈرامے خال خا ل دیکھنے کو ملتے ہیں، پاکستان چونکہ آئین کی بالادستی کے حوالے سے کوئی خاص ریکارڈ نہیں رکھتا، اس لئے گاہے گاہے آنے والے سیاسی وآئینی مسائل بھونچال پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آئین نامکمل، مبہم یا پیچیدہ ہے بلکہ اس لئے کہ اکثر اس کی من پسند تعبیر کر کے اسے بے توقیر کیا گیا، اس کا نتیجہ سامنے ہےکہ جب کبھی آئینی مسائل آسمانِ سیاست پر گردش کرنے لگتے ہیں تو اسی لمحے یہ وسوسے بھی ہویدا ہوتے ہیں کہ آیا آئین کی تعبیر، توضیع یا تشریح اُس کی روح کے مطابق ہو گی یا اسےحسبِ ضرورت بروئے کار لایاجائے گا۔ پاکستان میں آمروں نے تو آئین کو ردی کا ٹکڑا کہہ کر کوڑے دان میں ڈالنے کی روایت بارہا دہرائی ہی ہے لیکن شومئی قسمت کہ اہلِ سیاست نے بھی اس کے ساتھ حُسنِ سلوک نہیں کیا۔ ایک جہاں اگر بھارت کو بڑی جمہوریت قراردیتا ہے تو اس جمہوریت کا پشتی بان اس کا آئین ہی تو ہے۔ نومبر میں ہر سال بھارت یوم آئین مناتاہے، اس موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا جاتاہے کہ ’’حکومت اور عدلیہ دونوں نے آئین کی کوکھ سے جنم لیا ہے لہٰذا، دونوں ہی جڑواں ہیں۔ یہ دونوں آئین کی وجہ سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ اس لئے، وسیع تر نقطہ نظر سے دیکھیں تو مختلف ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہم سب کے مختلف کردار، مختلف ذمہ داریاں اور کام کرنے کے مختلف طریقے بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا عقیدہ، تحریک اور توانائی کا منبع ایک ہی ہے، – ہمارا آئین‘‘۔

ایقان ووجدان ہمارا یہی ہے کہ پاکستانی مٹی بڑی زرخیز ہے، لیکن فسوں یوں کہ پاکستان اور بھارت ایک ہی ماہ وسال میں آزاد ہوئے۔ ہندوستان کاا ٓئین اس کے پاسبانوں یعنی پارلیمنٹرین ہی کے طفیل پر وقار ہے، جبکہ ہمارے ہاں انتخابات کے متعلق جو ابہام ہے یہ پارلیمنٹرینز ہی کا پیدا کردہ ہے۔ 26جولائی2023کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017میں 54ترامیم کثرت رائے سے منظور کی گئیں، جس کے تحت نگراں حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگراموں سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے بھی کر سکے گی۔ اب کیا اس وقت پارلیمان میں پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور نوحہ کناں دیگر جماعتیں موجود نہیں تھیں! کیا وہ اس قدر کوتاہ علم وکج فہم تھیں کہ اُنہیں اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ اس سے کیا ابہام سامنے آئیں گے۔ یا ہم ان زندہ لاشوں کے متعلق یہ کہیں کہ اس سے پارلیمان میں موجود بیساکھیوں کے سہارے چلنے والوں کے ماسوا سب کے اذہان وقلوب میں یہ سچ نمایاں راسخ تھا کہ ان ترامیم کے بعد انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے اور نگراں حکومت کا دورانیہ طویل ہو جائے گا۔ امور مملکت چلانے کیلئے خود کو سب سے زیادہ اہل ظاہر کرنے والے نااہل اراکین پارلیمان اب لطیفہ گوئی میں ایک دوسرے کو مات دینےکیلئے کوشاں ہیں۔ پی پی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ’ہماری کوئی ضد نہیں‘ حلقہ بندیاں کروانی ہیں تو ’’ضرور‘‘ کروائیں ’’مگر‘‘ الیکشن کا انعقاد بروقت یقینی بنایا جائے، واہ کیا منطق ہے!! صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں لکھا ہےکہ آرٹیکل 48(5) کے تحت انتخابات اسمبلی تحلیل ہونے کے 89ویں دن ہونے چاہئیں۔ نگراں وزیراعظم کا فرمان ہے انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن دے گا، صدر نے تاریخ تجویز کر دی ہے، (مگر) حلقہ بندیاں بھی آئینی، انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن فرماتے ہیں اگر صدر کا اختیار ہے بھی تو اس کا استعمال بدنیتی پر مبنی ہے۔ رانا ثناء اللہ کا ارشاد ہے، صدر مملکت کے خط کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب آئینی اور قانونی ماہرین کہلائے جانے والے بھی منقسم ہیں۔ گویا اُستاد غالب نے پاکستانی جمہوریت کے رکھوالوں ہی کے متعلق کہا ہو گا۔ ’’بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے... ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘‘ !دوسری طرف مہنگائی کی صورت میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومتوں کے گناہ بخشوانے کیلئے نگراں حکومت بے تاب ہے، کہتے ہیں ایک کفن چور نے حالت نزاع میں بیٹے سے کہا کہ کوئی ایسا کام کرنا جس سے میرے گناہ دُھل جائیں، چنانچہ بیٹا کفن چوری کے ساتھ لاش کی بے حرمتی بھی کرنے لگا، یوں لوگ کہتے نظر آئے، اس سے تو اس کا باپ ہی اچھا تھا جو صرف کفن چوری کرتا تھا یہ تو لاش کی بے حرمتی بھی کرنے لگا ہے!!

تازہ ترین