ان تینوں الفاظ میں رے پر زبر ہے۔ ٹی وی کے دو چینل (نام حذف کیے جارہے ہیں) کے خبر خواں(جس کو اب عام طور پر نیوز ریڈر کہا جاتا ہے) ان تین لفظوں (ارب، عرب اوربرس)میں دوسرے حرف کوبڑی پابندی اور مستقل مزاجی سے ساکن پڑھتے ہیں یعنی غلط پڑھتے ہیں۔ ان الفاظ میں دوسرا حرف ساکن نہیں مفتوح ہے (یعنی اس پر فتحہ یعنی زبر ہے)۔
اردو میں مصدر بَرَسنا ہے اور اسی سے بَرَ س ہے، یعنی لفظ برس خواہ ’’سال ‘‘کے مفہوم میں بولا جائے خواہ ’’کسی چیز کا تواتر و تسلسل سے گرنا ‘‘کے مفہوم میں ، رے پر زبر کے ساتھ درست ہے۔اردو کی تمام مستند لغات میں برس اور برسنا میں رے پر زبر لکھا گیا ہے۔گویا یہاں رے ساکن نہیں ہے، لیکن بعض ٹی وی والے اس کو ساکن ہی پڑھتے ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹی وی کے بزرجمہروں نے یہ غلط تلفظ کہاں سے سیکھا؟ کم از کم غالب کا مشہور شعر ہی دیکھ لیتے:
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
اس شعر میں اگر برس میں رے پر زبر نہ پڑھا جائے اور اسے ساکن پڑھا جائے تو مصرع بحر سے خارج ہوجائے گا۔
ممکن ہے کوئی بزرگ دوست ہم پر برس پڑیں اور کہیں کہ یہ کیا بے ہودگی ہے،بَرَس اور اَرَب جیسے عام الفاظ کا درست تلفظ بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ تو دست بستہ عرض ہے کہ حضور اب اردو پر پیمبری وقت آن پڑا ہے ۔ اب تو اردو میں تخصیصی سند لینے والے طالب علم بھی ’’کے ‘‘ اور ’’کہ‘‘ میں تمیز نہیں کرسکتے اور ایک بڑے اخبار نے فیض کے مصرعے ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘کو جلی حروف میں ’’بول کے لب آزاد ہیں تیرے ‘‘لکھ دیا تھا۔اس پر ہمارا تبصرہ تھا کہ ’’بول کے ‘‘یعنی بولنے کے بعد لب تو آزاد ہوہی گئے ۔
یہاں یہ وضاحت بھی کردی جائے کہ اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق پیمبری وقت یا پیغمبری وقت کے مراد ی معنی ہیں : آزمائش و ابتلا کا زمانہ۔اور یہ وقت اب اردو پر آگیا ہے۔ لہٰذا اردو کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی والوں کی غلط اردو کو مثال نہ بنایا جائے۔درخواست ہے کہ ارب، عرب اور برس میں رے پر زبر بولتے رہیے۔