• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ مسلم خواتین پر ڈریس کوڈ کا نفاذ روکنے کیلئے مضبوط موقف اختیار کرے، تھنک ٹینک کی رپورٹ

لندن (نمائندہ جنگ) برطانیہ کی حکومت مسلمان خواتین پر ڈریس کوڈ کے نفاذ کو روکنے کیلئے مضبوط موقف اختیارکرے۔ ایک تھنک ٹینک ’’پالیسی ایکسچینج‘‘ کی نئی رپورٹ میں اس بات پر بحث کی گئی کہ کس طرح اسلام پسند گروہ برطانیہ اور ملک سے باہر مذہبی لباس سے متعلق گفتگو کرنے پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں جس سے لباس کے معاملے میں مسلمان خواتین کے انتخاب اور بات کرنے کی آزادی ممکنہ طور پر محدود ہو چکی ہے۔ تھنک ٹینک نے اس بات بھی پر زور دیا کہ کس طرح اسلامو فوبیا کا عوامی خوف اسلام پسند گروہوں کو برطانیہ میں مذہبی لباس کے بارے میں کھلی بحث کو روکنے کا باعث بن سکتا ہے، اگرچہ بہت سے اسلامی ملکوں میں خواتین حجاب کے نفاذ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں کہ یہ ایک جابرانہ لباس ہے ، یہ رپورٹ جس کا عنوان ’’ پردہ کی علامتی طاقت ‘‘ ہے ، اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت اسکولوں کو ڈریس کوڈ اور مذہبی لباس کے بارے میں واضح اور مثالوں کی مدد سے رہنمائی فراہم کرے،تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سکولوں میں حجاب جیسے مذہبی لباس کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی یونیفارم کے حصے کے طور پر ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ رپورٹ کے مطابق، حکومت کو اسلامو فوبیا کی کسی بھی تعریف کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح مذہبی رسومات پر تنقید کو محدود کرنے میں مدد ملے گی۔ مذکورہ رپورٹ میں اہم نتائج اور سفارشات کو لیبر ایم پی خالد محمود (برمنگھم، پیری بار) کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے کہا کہ مسلمان خواتین ایک خاص تناسب میں عوامی طور پر اپنی شناخت کو ظاہر کرنے کیلئے حجاب یا نقاب پہننا چاہتی ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ حجاب واضح طور پر تمام مسلمان خواتین کی نمائندگی نہیں کرتا اور یہ ایران، افغانستان، یمن اور دیگر جگہوں پر ان مسلمان خواتین کیلئے انتہائی غیر حساس ہے جو ان کی خواہشات کے خلاف حجاب پہننے پر مجبور ہیں ، اس رپورٹ میں ایک اور سفارش کی گئی ہے کہ حکومت کو مخصوص مذہبی لباس کی توثیق یا فروغ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ رپورٹ کے مصنف سعودی عرب میں سابق برطانوی سفیر اور پالیسی ایکسچینج کے سینئر فیلو، سر جان جینکنز نے کہا ہے کہ ایران میں ہونے والے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر نہ صرف اسلامی پردے اور دیگر لباسی ضابطوں کی علامتی طاقت کو ظاہر کیا ہے، آمرانہ اور غیر ذمہ دار سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کے مفادات میں افراد، گروہوں اور درحقیقت پورے معاشروں کو نظم و ضبط میں رکھنے کیلئے تعینات کیا گیا ہے۔رپورٹ کے شریک مصنف، انسانی حقوق کے وکیل پروفیسر الہام مانیا نے کہا کہ آزادی رائے اور تقریر کسی قسم کی اضافی چیز نہیں ہے اس کا مقصد ہے کہ اقتدار کے سامنے سچ بولنا، آمرانہ اور مذہبی احکامات کو چیلنج کرنا، اور اصلاحات اور انفرادی بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے زور دینا بھی ہے۔

یورپ سے سے مزید