لندن (پی اے) ایک نئی سٹڈی میں پتہ چلا ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد لانگ کوویڈ کے ساتھ رہنے والے افراد کے بڑے اور اہم اعضا کو کچھ نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایم آر آئی سکین سے یہ سامنے آیا ہے کہ مریضوں کے پھیپھڑوں، دماغ اور گردے جیسے متعدد اعضا میں کچھ ابنارملٹیز پیدا ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ریسرچرز کا خیال ہے کہ اس کا بیماری کی شدت سے ایک تعلق ہے۔ اسے امید ہے کہ برطانوی سٹڈی سے لانگ کوویڈ کیلئے زیادہ موثر علاج تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ لینسیٹ ریسپیریٹری میڈیسن میں شائع ہونے والی اس سٹڈی میں 259 مریضوں کا جائزہ لیا گیا، جو کوویڈ وائرس سے اتنے شدد بیمار ہو گئے تھے کہ انہیں ہسپتال میں داخل کروانا پڑا تھا۔ ہسپتال سے ڈسچارج کئے جانے کے پانچ ماہ بعد ان کے بڑے اعضا کے ایم آر آئی سکینز نے کچھ اہم فرق کی نشان دہی کی تھی۔ جب ان کا ایسے 52افراد کے گروپ سے موازنہ کیا گیا، جنہیں کبھی کوویڈ نہیں ہوا تھا تو سب سے زیادہ اثر پھیپھڑوں پر دیکھا گیا، جہاں سکینز میں ابنارملٹیز کی نشان دہی کے امکانات 14گنا زیادہ تھے جبکہ جن لوگوں کو شدید کوویڈ تھا تو ان کے دماغ اور گردوں میں ان ابنارملٹیزکے امکانات دگنے تھے تاہم دل یا جگر کی صحت میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ اس سٹڈی کی اہم ریسرچرز میں سے ایک اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر بیٹی رمن کا کہنا ہے کہ سکینز سے یہ واضح ہے کہ لانگ کوویڈ کی علامات کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے اعضا کو نقصان پہنچنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ کوویڈ کے علاج کے بعد ہسپتال سے فارغ ہونے کے پانچ ماہ بعد ہمیں ان مریضوں کے پھیپھڑوں، دماغ اور گردوں میں زیادہ ابنارملٹیز کا پتہ چلا۔ انہوں نے کہا کہ مریض کی عمر، بیماری کی شدت اور کوویڈ کے ساتھ وہ کتنے عرصے تک بیمار رہا اور اس کے ساتھ ہی اگر اسے دیگر عوارض بھی لاحق تھے تو یہ سب اہم عوامل تھے کہ آیا ان کے جسم کے اہم اعضا اس سے نقصان ہوا یا نہیں۔ یہ نتائج ایک بڑی سٹڈی کا حصہ ہیں، جو ہسپتال میں داخل ہونے والوں پر کوویڈ کے طویل مدتی اثرات کو دیکھتی ہے، جسے فاسپ کوویڈ سٹڈی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ریسرچرز نے ایم آر آئی سکینز کے ذریعے اعضا کو پہنچنے والے نقصان کی علامات کے ظاہر ہونے میں مماثلت پائی۔ مثال کے طور پر جکڑے ہوئے سینے اور کھانسی کے ساتھ پھیپھڑوں میں ابنارملٹیز۔ تاہم طویل عرصے سے کوویڈ کے ساتھ رہنے والوں کی تمام علامات کا براہِ راست تعلق سکینز میں نظر آنے والی چیزوں سے نہیں ہو سکتا اور ابتدائی انفیکشن سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بیٹی رمن نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہسپتال میں داخل کئے جانے والے لوگوں کے ایک سے زیادہ اعضا میں ابنارملٹیز دکھائی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو جائزہ لے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایم آر آئی پر ملٹی آرگن پیتھالوجی والے لوگ یعنی کہ جن کے دو سے زیادہ اعضاء متاثر ہوئے ہیں، ان کے شدید اور انتہائی ذہنی اور جسمانی خرابی کی اطلاع دینے کا چار گنا زیادہ امکان تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سٹڈی کی فائنڈنگز پلمونری اور ایکسٹرا پلمونری ہیلتھ (گردے، برین اور مینٹل ہیلتھ) پر توجہ مرکوز کرنے والی لانگ ٹرم ملٹی ڈسپلنری فالو اپ سروسز کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کیلئے، جو کوویڈ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔ ایسٹر یونیورسٹی سے منسلک اور فاسپکوویڈ سٹڈی کی رہنمائی کرنے والے پروفیسر کرس برائٹلنگ کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ مختلف علامات کے گروپ کے سنڈروم کو سمجھنے کی وسیع کوشش کا حصہ ہے، جس کو لانگ کوویڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پورے جسم کی امیجنگ کا تفصیلی مطالعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کوویڈ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے مہینوں بعد متعدد اعضا میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاسپکوویڈ سٹڈی یہ سمجھنے کیلئے کام کر رہی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہم لانگ کوویڈ کے ٹیسٹ اور نئے علاج کیسے تیار کر سکتے ہیں۔