مانچسٹر (ہارون مرزا) برطانوی ہوم آفس نے کہا ہے کہ چھوٹی کشتیوں سے آنے والے تارکین وطن کو تھری سٹار ہوٹلز میں ٹھہرانا چاہئے کیو نکہ پناہ کے متلاشیوں کی رہائش کے اخراجات روزانہ کی بنیاد پر 8ملین پاؤنڈ تک بڑھ گئے ہیں۔محکمہ کی طرف سے جاری معاہدے میں ہوٹلزکیلئے لازمی تقاضوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ شدہ جگہ کم از کم تھری سٹار ہونی چاہئیں تاہم یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ کتنے ہوٹل اس معاہدے سے منسلک ہیں ہاؤس آف کامنز میں اراکین پارلیمنٹ کے ہوٹلز کے استعمال کو چیلنج کرنے کے باوجود ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نے اس معاملے پر کوئی تفصیلات ظاہر نہیں بتائیں۔ رواں ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ ہوٹلز کا استعمال ناقابل قبول عمل ہوچکا ہے، ملک بھر کے بہت سے قصبوں اور شہروں میں اب تک 45 ہزارپناہ کے متلاشی ہوٹلز میں موجود ہیں۔ کنزرویٹو ایم پی سر جان ہیز نے کہا کہ ساؤتھ ہالینڈ دی ڈیپنگس میں ان کا حلقہ تارکین وطن سے یہ توقع نہیں کرے گاکہ وہ ایسے ہوٹلز میں رہائش پذیر ہوں گے جہاں وہ خود رہنے کے متحمل نہ ہوں، ہمیں محفوظ اور صاف ستھری رہائش فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ریفیوجی ایکشن چیرٹی نے کہا کہ دستاویز میں طے شدہ معیارات کے باوجود بہت سے پناہ کے متلاشی بھاری عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں کی فلاحی تنظیم کیئر فار کیلئس کے چیف ایگزیکٹو سٹیو سمتھ ایم بی ای نے کہا کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ ہوٹلز میں نہیں رہنا چاہتے، وہ کمیونٹیز کا حصہ بننا چاہتے ہیں، برطانیہ کی حکومت پناہ گزین ہوٹلوں کے استعمال کیلئے مکمل طور پر ذمہ دار ہے، پناہ کے متلاشیوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے استعمال کئے جانے والے ہوٹلز کی تعداد اور اس سے منسلک اخراجات اس مقام پر بڑھنے لگے جہاں حکومت نے سیاسی پناہ کے دعووں کی کارروائی کو سست کر دیا۔ ٹوری ایم پی سر ایڈورڈ لی نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ آر اے ایف سکیمپٹن کو پناہ گزینوں میں تبدیل کرنے کی تاخیری کوششوں سے عوامی پیسہ برباد کر رہی ہے۔