آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں پختون ثقافت کا عالمی دن منایا گیا، ہر سال اس دن کومنانے کا فیصلہ 2015میں کوئٹہ میں منعقدہ عالمی پشتو کانفرنس میں کیا گیا تھا، جس کے بعد 23ستمبر کواس سلسلے میں ہونے والے میلے میں شرکت کیلئے فن وثقافت کا گرویدہ ایک جہاں منتظر رہتا ہے، اپنے میدانوں میں نام کمانے والی قد آور شخصیات وفنکاروں کی وجہ سے جہاں یہ میلہ تزک و احتشام اور رنگ ونور کی کہکشاں کا منظرنامہ ہوتا ہے، وہاں لوک ورثے کو زندہ وتاباں رکھنے میں فعال کردار کے حامل فنکار شرکا کے جذبوں کو مہمیز دینے کا سبب بنے رہتے ہیں۔ ملک بھر میں آرٹس کونسل کراچی ہی ایک ایسا مثالی ادارہ ہے جہاں اس نوع کے میلے سال بھر سجتے رہتے ہیں،جو اس ادارے کے قائد احمد شاہ کی مرہونِ منت ہے۔ راقم کو جب اے این پی کے سیکریٹری جنرل یونس بونیری نے بتایا کہ ہم آرٹس کونسل کراچی میں پختون کلچرڈے منانا چاہتے ہیں،تو میں نقاہت کے باوجود اپنے رفیق کار شمروز ایڈووکیٹ کے ہمراہ آرٹس کونسل پہنچا، جہاں احمد شاہ صاحب نے اجلاس سے باہر آ کر میری خیریت دریافت کی، اس دوران ہم نے پروگرام کی بابت بتایا جس پر اُنہوں نے روایتی وسعت النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تہذیب و ثقافت کے دشمنوں سے علم وادب، فن و ثقافت کے ذریعے لڑنا ہے، آرٹس کونسل کے دروازے بلا امتیاز کھلے ہیں۔ پختون کلچر ڈے کے مہمانِ خصوصی عدم تشدد کے پرچارک حضرت باچا خان کے گھرانے کے چشم وچراغ ایمل ولی خان تھے، صدارت صوبائی صدر شاہی سید نے کی۔ پروگرام کو یونس بونیری اور اُن کے معاون شاہ امروز ایڈوکیٹ نے بڑے سلیقے سے ترتیب دیا تھا۔ پروگرام میں شرکت کیلئے عالمی شہرت یافتہ گلوکار ڈاکٹر کرن خان اور ہر دلعزیز کمپیئر افسر افغان خصوصی طور پر پشاور سے تشریف لائے تھے، ڈاکٹر کرن خان دل آویز آواز کے حامل ہونے کے ساتھ شاعر، ادیب، اسکالر و محقق بھی ہیں، اکثر بیرون ملک رہتے ہیں یہ ہمارے دوست ٹھاکر مقرب خان کی کاوشوں کا ثمر تھا کہ وہ کراچی کے پختونوں کیلئے وقت نکال پائے۔ ایمل ولی خان کو ائیرپورٹ سے آرٹس کونسل پہنچنے میں تین گھنٹے لگے ایک عرصے بعد اس روز اے این پی نے اپنی کارکردگی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کارکنوں کی فعالیت کو ثابت کیا۔ جب جلوس آرٹس کونسل پہنچا تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اس وجہ سے بدنظمی دیکھنے میں آئی۔ تصاویر بنانے کے شوقین عہدیداروں نے اسٹیج پر دھاوا بول کر یونس بونیری اور شمروزخان ایڈووکیٹ کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اگرچہ اتنا بڑا کراؤڈ اے این پی کی قوت کاا ٓئینہ دار تھا، لیکن بدنظمی سے دیگر جماعتوں سے وابستہ مہمانوں نے اچھا اثر نہیں لیا۔ اس موقع پر ایمل ولی خان نے پر جوش تقریر میں کہا کہ پختونوں نے آج ثابت کر دیا کہ کراچی دنیا بھر میں پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ آج ان لوگوں کو جواب مل گیا جو اے این پی کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اس محبت پر کراچی کے شہریوں کا ممنوں ہوں۔ خطاب کے بعد اُنہوں نے مجھ فقیر کی دستار بندی کی۔ ایمل ولی خان کو چونکہ اگلے روز شیڈول شدہ پروگراموں میں شرکت کیلئے واپس پشاور جانا تھا، لہٰذا وہ جیسے ہی روانہ ہوئے تو ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا، ایسے عالم میں روایتی رقص اتنڑ کیا ہو تاکہ ڈاکٹر کرن خان کو سننے کیلئے بے تاب ہزاروں شائقین بھی اُس وقت مایوس ہوئے جب اُنہوں نے اپنے پسندیدہ گلوگاروں کو اسٹیج پر رش کی وجہ سے پرفارمنس سے عاجز پایا۔ ان گلوگاروں کی رہائش کا انتظام ہمارے مہربان ٹھاکر مقرب خان نے اپنے دوست امیر حسین کی رہائش پر کیا تھا، جب ہم ان کی گاڑی میں روانہ ہوئے تو ڈاکٹر کرن خان نے کہا کہ عالم ایسا بنا کہ ہمارے لئے پر فارم کرنا ناممکن بنا دیا گیا، خوشی اس بات کی ہے کہ ایمل ولی خان کو تاریخی پذیرائی ملی، ہماری قسمت میں شاید تشنگی تھی، دکھ اس بات کا ہے کہ ہزاروں چاہنے والوں کو مایوس لوٹنا پڑا۔ اگلے روز برادر مقرب خان نے فون کیا کہ آپ امیر حسین کی رہائش گاہ آ جائیں، میں اور شمروز خان پہنچے تو ڈاکٹر کرن خان یہی کہتے رہےکہ میں کراچی کے پختونوں کی محبتوں کا مقروض ہوں، جلد یہ قرض اُتارنے کی کوشش کرونگا۔ راقم کا یہاں کہنا فقط یہ ہے کہ فنکار بہت حساس ہوتے ہیں، محترم شاہی سید صاحب!! بلاشبہ آپ نے شہر میں ایک بڑا پاور شو کیالیکن تصاویربنانے کے شوقین یاروں نے رنگ میں جو بھنگ ڈالا، سوال یہ ہے کہ کیا یہ ماجرا احتساب کا متقاضی نہیں!!