لندن (پی اے) ایک نئی ریسرچ میں انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ برسوں میں یونیورسٹی کے طلبہ کے رپورٹ کئے جانے والے مینٹل ہیلتھ مسائل تقریباً تین گنا ہو گئے ہیں۔ برطانیہ بھر کی یونیورسٹیوں میں ایسے انڈر گریجویٹ طلبہ کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں مینٹل ہیلتھ کیئر کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ تعداد 2016/17اور 2022/23کے تعلمی کیلنڈرز کے دوران 6فیصد سے بڑھ کر 16فیصد تک پہنچ گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب چھ میں سے ایک انڈر گریجویٹ طالب علم مینٹل ہیلتھ مسائل سے دو چار ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ طالبات میں مینٹل ہیلتھ مسائل سے دوچار ہونے کے امکانات طلبہ کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہیں۔ مینٹل ہیلتھ مسائل کی شکار طالبات کا تناسب 12 فیصد جبکہ طلبہ کا تناسب تقریباً 5 فیصد ہے۔ کنگز کالج لندن کے پالیسی انسٹی ٹیوٹ اور سینٹر فار ٹرانسفارمنگ ایکسیس اینڈ سٹوڈنٹ آؤٹ کمز ان ہائر ایجوکیشن(ٹی اے او ایس) کی ریسرچ میں پتہ چلا کہ مینٹل ہیلتھ مسائل میں اضافے کا ایک اہم حصہ گزشتہ 12ماہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس مدت کے دوران مصارف زندگی کے بحران نے شدت اختیار کر لی ہے۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے خواہش مند طلبہ کی غالب اکثریت کا سب سے عام سبب مینٹل ہیلتھ مسائل ہیں۔ ریسرچ ڈیٹا کے مطابق مینٹل ہیلتھ کی وجہ سے یونیورسٹی چھوڑنے پر غور کرنے والوں میں مالیاتی پریشانی کو بنیادی سبب قرار دینے والے طلبہ کا تناسب 2022 اور 2023 کے درمیان 3.5 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد پر پہنچ گیا لیکن مینٹل ہیلتھ مسائل میں عمومی اضافے کا رجحان افراط زر میں اضافے اور کوروناوائرس کوویڈ 19 پینڈامک دونوں کو سبب کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اعداد و شمار اس بات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس میں دیگر عوامل بھی کارگر ہو سکتے ہیں۔ ریسرچرز نے اپنے تجزیئے میں سات برسوں کے دوران 82,682 فل ٹائم یوکے انڈرگریجویٹس کا ڈیٹا سیٹ تیار کیا ہے، جو یہ نشان دہی کرتا ہے کہ کچھ گروپس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نان بائنری جواب دہندگان میں سے 42 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کی مینٹل ہیلتھ متاثر ہوئی ہے جبکہ ٹرانس جینڈرز میں یہ تناسب 30 فیصد تھا۔ ریسرچ ڈیٹا میں بائی سیکسوئل افراد میں مینٹل ہیلتھ مشکلات کی اوسط سطح ایل بی جی ٹی کیو گروپس میں سب سے زیادہ پائی گئی تھی جبکہ ہم جنس پرست مردوں (14 فیصد) میں سب سے کم تناسب پایا گیا ہے حالانکہ یہ اب بھی سٹریٹ پیپل (7 فیصد) میں دیکھی جانے والی سطح سے زیادہ ہے۔ سفید فام طلبہ (12 فیصد) میں مینٹل ہیلتھ دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھیوں کی نسبت اوسطاً بدتر پائی گئی ہے لیکن مکسڈ نسل (12 فیصد) کو مینٹل ہیلتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری سکولز سے تعلیم حاصل کرنے والے انڈر گر یجویٹ طلبہ میں مینٹل ہیلتھ مسائل 15 فیصد تھے، جو ان کے نجی سکولز میں تعیلم حاصل کرنے والے ساتھیوں کے مقابلے میں اوسطاً بدتر ہیں جن کا تناسب 11فیصد ہے۔ ریسرچ کے مطابق مینٹیننس لون، قرض یا پیڈ ورک کے ذریعے رقم حاصل کرنے والے طلبہ کی مینٹل ہیلتھ سکالر شپس یا فیملی کی جانب سے مدد حاصل کرنے والے طلبہ کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں پبلک پالیسی کے پروفیسر اور اس مطالعے کے مصنف مائیکل سینڈرز کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ کے نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلبہ میں ذہنی خرابی کے تجربات انتہائی غیر مساوی ہیں اور یہ بالکل انہی خطوط پر ہیں، جو بڑے پیمانے پر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہائی پسماندہ بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے یا اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے افراد کو عام طور پر ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سٹڈی کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ جس حد تک اور جہاں بھی ممکن ہو، مینٹل ہیلتھ مسائل کو روکنے کیلئے مزید کارروائی کرنی چاہئےاور یہ کہ مینٹل ہیلتھ سروسز کو مناسب وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں تاکہ ضرورت پڑنے پر طلبہ کو بروقت مدد فراہم کی جا سکے۔ ٹی اے ایس او کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عمر خان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ طلبہ کو مستقل اور وسیع پیمانے پر درپیش مینٹل ہیلتھ چیلنجز کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک اور مصارف زندگی بحران نے اس طرح کے چیلنجز کو واضح طور پر بڑھا دیا ہے اور اوپر جانے کا رجحان کوئی نیا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو بہتر اندازمیں سمجھنے کیلئے ہائر ایجوکیشن سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں کہ تمام طلبہ کیلئے مینٹل ہیلتھ کے نتائج کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کیا کام کرنا چاہئے۔ یہ صورت حال این ایچ ایس ریس اور ہیلتھ آبزرویٹری کی ایک علیحدہ رپورٹ کے طور پر سامنے آئی ہے، جس میں انگلینڈ میں جپسی، روما اور ٹریولر کمیونٹیز کے لوگوں کیلئے مزید مینٹل ہیلتھ سپورٹ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ان گروہوں میں خودکشی کی شرح دیگر کمیونٹیز کے مقابلے سات گنا زیادہ ہے۔ این ایچ ایس ریس اینڈ ہیلتھ آبزرویٹری کے چیف ایگزیکٹو حبیب نقوی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جپسی، روما اور ٹریولر کمیونٹیز کو نفسیاتی علاج اور دیگر مینٹل ہیلتھ سروسز تک رسائی میں سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ رپورٹ ان کمیونٹیز کو درپیش مینٹل ہیلتھ مسائل اور بدنما داغ کو سامنے لاتی ہے۔