حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن یہ وہ وقت ہے جب ربیع الاول کا محترم مہینہ چل رہا ہے اور اسی وقت نہایت ہی دھوم دھام سے حوا کی بیٹیوں کا دن بھی منایا جا رہا ہے جو لوگ واقعی اپنی بیٹیوں کو جگر کا ٹکڑا سمجھتے ہیں اور حقیقی محبت رکھتے ہیں وہ تو سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر اپنی اپنی محبت اور شفقت کے جذبات ظاہر کر رہے ہیں کہ زمانہ اب بدل گیا ہے اور اس دور میں بیٹیوں نے اپنے مرتبہ و مقام میں خود اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے، اچھے پیشے اپنا کر اور محنت و سخت حالات کا مقابلہ کرکے چار چاند لگائے ہیں۔ اپنے زوروبازو اور ثابت قدم ہونے سے جو اعتماد آج کی بیٹیوں کو حاصل ہوگیا بلکہ ہوتا جا رہا ہے وہ شاید اب بڑھتا ہی جائے اورکم نہ ہو۔ مگر ہم بات جہاں کرتے ہیں بیٹیوں کی تو وہاں پھر بیٹیاں پیدا کرنے والی مائوں کی بھی بات ہو جائے تو اچھا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کو سب اچھا اچھا نصیب نہیں یہاں خوشی کیساتھ ساتھ سانحات بھی نتھی ہوتے ہیں۔ بیٹیاں پیدا کرنے والی مائوں کے بطن داغ ندامت سے آج بھی آلودہ ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں تو مائوں کو جو بیٹیاں پیدا کرتی تھیں ان کی خودکشی یا زمین میں زندہ گاڑنے کے واقعات کم ہی ہیں مگر حالیہ دور مائوں کو داد و آفرین کہنے کانہیں بلکہ انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوتے ہیں۔ بہادروں کی طرح بعض سر کٹانے والے مرد بھی بیٹیاں ہونے پر سر جھکا لیتےہیں۔ بیٹا پیدا ہونے پر اپنی فتح اور بیٹیاں پیدا ہونے کو قسمت کی شکست مانتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو بیٹیوں کی پرورش و تربیت کی وجہ سے معمولی سی تکلیف بھی اٹھانا پڑی تو یہ بیٹیاں اسکے لئے جہنم سے بچائو کا ذریعہ ہوں گی یہ گرچہ سمجھنے والے کم ہیں۔ ویسے تو ہم دین پر بہت مصروف عمل رہتے ہیں نماز روزے کی ادائیگی کے علاوہ احکام خداوندی کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے علاوہ نبیؐ کی سنت اور انکے بتائے راستوں پر بھی چلتے ہیں مگر وہ جو زمانہ جاہلیت کی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والی ریت تھی وہ ابھی تک بعض جہلا میں موجود ہے اب بلکہ بیٹیاں پیدا کرنے والی مائوں کو ایسا طعنوں تشنوں سے چھلنی کیا جاتا ہے کہ دلبرداشتہ ہوکر وہ خودکشی کی کوشش کرتی ہیں کبھی ان کی جان چلی جاتی ہے اور کبھی وہ اپاہج ہوکر زندہ رہتی ہیں۔ بیٹیوں کے عالمی دن پر ہی کہیں خوشیاں منائی گئیں اور کہیں بیٹیوں کی پیدائش پر ساس اور شوہر نے مل کر اس کا گلہ گھونٹ دیا۔ بات وہی کہ طعنوں سے تنگ آکر قصور کی بیٹی سدرہ نے ہسپتال کی دوسری منزل سے چھلانگ لگادی کیونکہ تیسری بیٹی کا طعنہ سہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ پھر ایک اور بیٹی عشرت بی بی اپنی ساس اور شوہر کے ہاتھوں گلہ گھٹ کر موت کی نذر ہو گئی تھی۔ بیٹیاں پیدا کرنے کی پاداش میں کوئی ایک بیٹی قتل یا خودکشی نہیں کرتی بلکہ کئی بیٹیاں سسرال کے طعنوں سے موت کی آغوش میں گئی ہیں۔ کوئی جلا دی گئی کسی کو تشدد سے قتل کیا پھر خود ہی کو مار گئی۔ یہ مرنے والیاں بھی کسی کی بیٹیاں ہی ہوتی ہیں مگر یہ مرتی ہیں ماں والے مقام پر پہنچ کر۔کئی صدیا ں گزرنے کے بعد ہونا تو یہ چا ہئے کہ زمانے کیساتھ ساتھ ہر انسان کو بدل جانا چاہئے تھا مگر اس معاشرے نے عورت کو زندہ بھی رکھا تو اپنی شرائط پر۔ زیور تعلیم سے آراستہ کیا تو اپنی مرضی سے، وراثت میں حصہ دار یا حقدار ٹھہرایا تو اپنی مرضی سے ، ان کی شادیوں کے فیصلے کئے تو اپنی مرضی سے، عورت کو عزت دی تو وہ بھی اپنی مرضی سے، اسے اپنے حکم کے تابع رکھا تو وہ بھی اپنی مرضی سے، غرض ہر طرح سے اسے باندھ کر پابند کرکے رکھا اپنی مرضی سے، عورت کے حقوق پامال کئے تو بھی مرضی سے۔ آقائے دو جہاںؐ نے اپنی بیٹی کو جیسا احترام دیا ویسا احترام آپؐ کی امت کے مردوں نے بہت کم دیا۔ آپؐ نے اہل عرب کو اپنی بیٹیوں کی عزت کرنا سکھایا اور بتایا کہ بیٹوں کی طرح بیٹیاں بھی عزیز ہوتی ہیں۔ آپؐ نے اپنے اسوہ حسنہ سے خواتین کو توقیر سے ثابت کیا کہ خواتین مرتبے اور مقام میں کسی بھی صورت کم نہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بیٹیوں کی اچھی پرورش کرنے والے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوں گے، اجر پائیںگے۔اولاد کو اللہ پاک کی عظیم نعمت جانا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بیٹے عطا کرے اورجسے چاہے بیٹیاں اور جسے چاہے اس نعمت ورحمت سے محروم رکھے۔ بیٹی پر خرچ کرنا صدقہ کی طرح ہے اوراس پرشفقت کرنے والا خوف خدا سے معمور رہتا ہے۔ آپؐ کا فرمان ہےکہ بیٹیوں کو برا مت سمجھو، بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی۔ میں نے دو کھجوریں دیں ایک کھجور کے دو حصے کرکے اس نے بیٹیوں کو دیئے اور ایک خود کھانے لگی تو وہ بھی اس نے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دی کہ وہ کھالیں۔ آپ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے اس واقعے سے بہت تعجب ہوا اور میں نے یہ واقعہ نبیؐ کریم کے گوش وگزار کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے اس ایثار کی وجہ سے اس عورت کیلئے جنت واجب کر دی ہے۔ تو آج کے دور میں جب کچھ اچھا نہیں چل رہا تو نیکیاں بھی دور ہو جاتی ہیں ایسے میں اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کی قدر کرکے زندگی کو بابرکت بنایا جا سکتاہے۔ توکیوں نا بیٹیوں اوربیٹوں کی مائوں کی قدر کرکے جیا جائے۔ اب اس دور میں توزمانہ جاہلیت کو نہیں دہرانا چاہئے۔