• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہیدِ ختمِ نبوت، مفتی محمد جمیل خانؒ

مفتی خالد محمود

۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۳؍ شعبان المعظم ۱۴۲۵ ھ کی ایک خون آشام شام تھی، جب اقرأ روضۃ الاطفال کے بانی اور نائب مدیر ، عالی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرگرم رہنما، ان گنت مساجد و مدارس اور خانقاہوں کے سرپرست و معاون ، عالم اسلام کے جلیل القدر فرد، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مایہ ناز سپوت، نامور عالم دین، علماء و مشائخ کے خادم ، غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے اور ہر شخص کے کام آنے والے ایک درد مند انسان اور روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحہ کے نگراں مفتی محمد جمیل خانؒ کو خون میں نہلا دیا گیا، مفتی محمد جمیل خان تو اپنے ہی لہو سے وضو کرکے سرخرو ہوکر بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئے، آپ تو مرتبۂ شہادت پر فائز ہوکر خلد آشیاں ہوگئے ، ظالموں نے سمجھا کہ انہوں نے مفتی جمیل خان ؒ کی زندگی کا چراغ گل کردیا مگر وہ تو شہادت کو گلے لگاکر حیات جاودانی پاگئے، کیوں کہ قرآن کریم کہتا ہے ’’شہید زندہ ہوتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو‘‘۔

مفتی صاحب ایک کامیاب زندگی گزار کر کامیاب طریقے سے اس دنیا سے رخصت ہوئے ،مگر آپ کے قاتلوں نے ان ظالموں نے اپنے لیے ہمیشہ کا عذاب ، اللہ کا غضب مول لیا اور لعنت خداوندی کے مستحق قرار پائے، کیوںکہ قرآن کہتا ہے: ’’ اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا، اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘(سورۃ النساء ،: ۹۳)

مفتی محمد جمیل خان ؒ ایک معروف، معزز اور دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے، گھر میں دینی ماحول تھا اور ابتداء ہی سے مفتی صاحب کو بزرگوں کی صحبت میسر آئی، ان اکابر کی تعلیم و تربیت نے ان کی شخصیت کو اس طرح نکھارا اور سنوارا کہ ان کی زندگی ایک خاص دینی مزاج میں ڈھلتی چلی گئی۔

جس طرح علم ظاہری محض کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ کسی ماہر استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے ، اسی طرح باطنی علم بھی صرف کتابوں کے دیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ بھی کسی اللہ والے کے دامن سے وابستہ ہونے ، کسی صاحب نسبت بزرگ کے قدموں میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ مفتی صاحب نے علامہ سید محمد یوسف بنوری ، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی، امام اہل سنت حضرت مفتی احمد الرحمن ، مولانا محمد ادریس میرٹھی، مولانا بدیع الزماں، مولانا سید مصباح اللہ شاہ، مولانا عبد اللہ کاکاخیل ، مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار، ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا فضل محمد سواتی، مولانا محمد سواتی، مولانا عبد القیوم چترالی، مفتی خلیل احمد جیسے جید علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے قرآن و حدیث ، فقہ اور دیگر علوم شریعت کی تعلیم حاصل کی، قرآن کریم قاری محمد حامد، قاری محمد شریف تھانوی اور فرشتہ صفت استاد قاری عبد الغفار کے ہاں حفظ کیا۔ اپنے باطن کی اصلاح کے لیے بالترتیب مولانا فقیر محمد پشاوری، مولانا محمد اشرف ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، خواجہ خواجگان مولانا خواجہ خان محمد کے دامن سے وابستہ ہوئے ان اکابر کے علاوہ ڈاکٹر عبد الحئی عارفی، مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہم اللہ سے بھی فیض حاصل کرتے رہے۔

ان اکابر و مشائخ اور اساطین علم کی تعلیم و تربیت نے مفتی محمد جمیل خانؒ کو کندن بنادیا ، ان مشائخ نے آپ کو تراش تراش کر ایک ایسا قیمتی ہیرا بنادیا تھا جو ہمیشہ اُفق پر چمکتا رہا۔ ان اکابر کی کیمیا اثر نظر نے آپ کو ایسا مینارۂ نور بنادیا تھا جس کی روشنی میں لوگوں کے لیے راہِ ہدایت پر گامزن ہونا آسان ہوجاتا ۔ مفتی صاحب اہل مدارس کا وقار اور خانقاہوں کی رونق تھے۔ 

مجروح اور شکستہ دل ان کے انفاس سے مرہم پاتے اور بے کس و در ماندہ افراد ان کے سایۂ عاطفت میں پناہ لیتے، وہ شمع کی مانند خود پگھلتے رہے، مگر دوسروں کو روشنی بخشتے رہے، خود جلتے رہے، مگر دوسروں کو جلا بخشتے رہے، خود بے چین و بے قرار رہ کر دوسروں کو سکون بخشتے رہے، وہ تواضع و انکساری کاپیکر تھے، اگر احباب ان کی نرم خوئی اور ان کے حسنِ سلوک کے معترف تھے تو حکام اور سرکاری افسران ان کی حمیت و غیرت، ان کی جرأت و استقامت اور ان کی حق گوئی و بے باکی سے خائف رہتے، کیوں کہ انہوں نے بغیرخوف لومۃ لائم کے ہمیشہ حق کہا اور حق پر ثابت قدم رہے، انہیں حق گوئی سے کوئی لالچ، کوئی خوف نہ روک سکا، باطل فتنوں اور اہل زیغ کے سامنے وہ ہمیشہ سد سکندری ثابت ہوئے، انہوں نے ہمیشہ ملاحدہ و زنادقہ کے فتنوں کے سیلاب کے سامنے بند باندھا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرپرستی کی اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے رات دن ایک کیے رکھا، اقرأ روضۃ الاطفال کے ذریعے قرآن کریم کی روشنی کو گھر گھر پہنچانے کے لیے رات دن کوشاں رہے،اس طرح ان کی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ، اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام کی دعوت و تبلیغ، قرآن کریم کی اشاعت اور ختم نبوت کی پاسبانی میں گزری۔

آپ نے ہر ایک کی خدمت کرکے، ہر ایک کے کام آکر، ہر ایک کی رہنمائی کر کے، ہر تحریک کا روحِ رواں بن کر، ہر درد مند کا درماں بن کر اپنے آپ کو اس طرح منوالیا تھا کہ وہ ہر ایک کی ضرورت بن گئے تھے، جس کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، کوئی پریشانی لاحق ہوتی، کسی کا کام نہ ہو رہا ہوتا تو وہ مفتی صاحب ہی کی طرف رجوع کرتا اور آپ بغیر کسی تفریق کے ہر ایک کے کام آتے۔

مفتی صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے یقین و توکل کی دولت سے بھی خوب نوازا تھا، مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ پر بڑا اعتماد تھا، اسی اعتماد و توکل کی بدولت وہ بڑے سے بڑے کام اور مشکل ترین کام میں ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے اور اپنے یقین کی بناء پر اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ، ان کے احباب و رفقاء جب کبھی اپنی پریشانی کا اظہار کرتے کہ یہ کام مشکل ہے ، نہیں ہوسکتا تو ہمیشہ ان کی تعلیم یہی ہوتی تھی کہ پہلے سے کیوں سوچ لیتے ہو کہ یہ کام نہیں ہوسکتا تم کوشش تو کرو، قدم تو بڑھاؤ، اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرو، باقی اللہ کے سپرد کردو، ان شاء اللہ یہ کام ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا ہم نے اپنی زندگی میں مفتی صاحب سے زیادہ توکل ویقین والا شخص نہیں دیکھا۔

مفتی صاحب بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے، دن رات محنت کرنے اور جہد مسلسل کے عادی تھے، ان کی لغت میں شاید چین، سکون ، راحت طلبی خصوصاً مایوسی کا کوئی لفظ نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کبھی مدح سرائی کے خواہش مند رہے، نہ کسی صلہ و ستائش کے طلب گار۔ اپنے اکابر کی طرح انہیں بھی حرمین سے جنون کی حد تک والہانہ لگائو تھااور ہر سال دو مرتبہ تو لازماً اور کبھی کبھی سال میں چار پانچ مرتبہ بھی حاضری نصیب ہوجاتی اور وہاں کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹ کر حرمین سے واپس ہوتے۔

حضور اکرمﷺ کی محبت آپ کے رگ و و پے میں سرایت کی ہوئی تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہمیشہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہے اور آپ ہمیشہ اپنے اکابر کی قائم کردہ جماعت ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے ساتھ وابستہ رہے ۔

مفتی صاحب ایک نامور صحافی بھی تھے، آپ نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو اپنے دیگر امور کی طرح وہاں بھی اپنا لوہا منوایا۔ آپ نے وادیٔ صحافت میں ۱۹۷۸ء میں قدم رکھا۔ روزنامہ جنگ نے’’ اقرأ ‘‘کے نام سے اسلامی صفحہ کا آغاز کیا تو آپ کو اس کا نگران بنایا ، آخر دم تک آپ نے جس طرح کامیابی اور خوبصورتی کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا، وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، آپ بڑی محنت ، جاں فشانی اور لگن سے یہ صفحہ ترتیب دیا کرتے، اس اسلامی صفحہ کا مقبول ترین کالم جو غالباً روزنامہ جنگ کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مقبول ترین کالم تھا، وہ ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل ‘‘ہے جس میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ عوام الناس کی دینی رہنمائی اور ان کے سوالات کے جوابات مرحمت فرماتے ، ان کی شہادت کے بعد مفتی نظام الدین شامزئی ؒ اور پھر مولانا سعید احمد جلال پوریؒ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے، اتنے بڑے نامور علماء کا اس کالم سے وابستہ ہونا مفتی جمیل صاحب کا مرہون منت ہے، مفتی صاحب کی محنت اور نامور علماء کی محنت نے اس کالم کو اتنا وقیع اور معتبر بنادیا تھا کہ اب کسی عام مفتی اور عالم دین کے بس کی بات نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا سعید احمد جلال پوریؒ کی شہادت کے بعد مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ نے یہ فریضہ انجام دیا اور آج کل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس مولانا سید سلیمان بنوری یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مفتی جمیل صاحب کے مشورے سے ان کی رہنمائی میں متعدد دینی رسائل منظر عام پر آئے، کئی رسائل کی ادارت آپ نے خود سنبھالی، صحافت کے میدان میں آپ کا ایک شاندار کارنامہ ماہنامہ’’ اقرأ ڈائجسٹ‘‘ کا اجرا تھا ۔ ۱۹۸۵ء میں مفتی محمد جمیل خان شہید ؒ نے اسلامی صحافت میں ایک زریں باب کا اضافہ کیا اور جب ہر بک اسٹال مختلف رنگا رنگ تصاویر سے مزین بے شمار ڈائجسٹ سے آراستہ اور اپنی ظاہری جاذبیت و کشش سے ہر نگاہ کا مرکز ہو، جس میں دل کو لبھانے والی کہانیاں، خوش کرنے والے ناول اور ہر طرح کی تفریح طبع کا سامان ہو، ایسے وقت میں تصاویر سے مبرا خالص اسلامی ڈائجسٹ نکالنا جو کہانیوں ، ناولوں کے بجائے دینی معلومات، صحابہ کرامؓ اور اکابر کے واقعات پر مشتمل ہو، جس کا مقصد تفریح طبع کے بجائے تبلیغ دین اور اشاعت اسلام ہو، یہ صرف مفتی جمیل صاحبؒ کی عالی ہمت او ربلند حوصلہ تھا کہ تمام حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ایک بہترین رسالہ قوم کے سامنے پیش کیا، جو اپنے نام کی طرح اپنے مضامین کے اعتبار سے بھی خوبصورت تھا، یہ رسالہ بڑا کامیاب ہوا اور کئی سال تک شائع ہوتا رہا، بعد مین بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر اس کی اشاعت رُک گئی۔

مفتی محمد جمیل خان شہید ؒ کے کارہائے نمایاں بھی بہت زیادہ ہیں اور آپ کے محاسن بھی کثیر ہیں۔ ان سب کا احاطہ کرنا بلکہ سرسری بیان کرنا بھی مشکل ہے، لیکن یہاں دوباتوں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں: ایک ان کا بزرگوں کی خدمت کرنا اور دوسرا ان کا اقرأ روضۃ الاطفال کا عظیم علمی اور دینی کارنامہ۔

جہاں تک خدمتِ خلق کا تعلق ہے تو مولانا رومی نے ایک شعر میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ ہے:’’ہاتھ میں تسبیح ہو، مصلیٰ اور سجادہ بچھا ہوا ہو، گدڑی پہنی ہوئی ہو، تصوف اس کا نام نہیں ہے، بلکہ تصوف و طریقت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ مخلوق خدا کی خدمت کرو۔ مولانا رومیؒ کی اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے اپنے اساتذہ اور مشائخ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا، صرف بزرگوں ہی کی خدمت نہیں کی، بلکہ مفتی صاحبؒ نے ہر بڑے چھوٹے کی خدمت کی، یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب کی زندگی میں خدمت کا وصف سب سے نمایاں تھا اور مفتی صاحب کے اس وصف سے اپنوںہی نے نہیں،بلکہ غیروں نے بھی فائدہ اٹھایا، مفتی صاحب خدمت کرنے میں اتنے ممتاز تھے کہ آشنا، نا آشنا، واقف، ناواقف کی کوئی قید نہیں تھی، جسے ضرورت پڑی، مفتی صاحب اس کی خدمت کے لیے ہمہ وقت حاضر اور اس خدمت کے صلے میں نہ کوئی لالچ، نہ کسی صلے کی تمنا، نہ ستائش و تعریف کی خواہش، یقیناً مفتی صاحب کی خدمت بے لوث اور بلاغرض تھی اور یہ وصف آج کل عنقا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے اکابر نے برملا یہ اعتراف کیا کہ مفتی محمد جمیل نے اولاد سے بڑھ کر ہماری خدمت کی ہے۔

مفتی صاحب کا دوسرا کارنامہ جو ان کی زندگی کا آخری اور تجدیدی کارنامہ ہے وہ اقرأ روضۃ الاطفال کا قیام ہے۔ اقرأ روضۃ الاطفال کے قیام کو بہت سے اکابر نے ان کا تجدیدی کارنامہ قرار دیا۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سابق امیر ممتاز عالم دین، مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ تحریر فرماتے ہیں:’’اقرأ نظام تعلیم کے وہ موجد بلکہ مجدد تھے۔ یہ نظام بہت مقبول ہوا، اونچی سوسائٹی کے لوگ جو مدارس عربیہ کے نام سے بدکتے تھے، اس نظام سے بہت متاثر ہوئے، اس نظام کے ذریعے گھر گھر قرآن کریم اور دینی تعلیم کے اثرات پہنچ گئے۔ اس نام سے پورے ملک میں مدارس کا جال پھیل گیا، جس کے معاشرے پر خوش گوار اثرات مرتب ہوئے، یہ سب ان کا صدقۂ جاریہ ہے۔

شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں:’’ان کا ایک عظیم کارنامہ، جو ان شاء اللہ ان کا بہترین صدقہ جاریہ ہے… ’’اقرأ روضۃ الاطفال‘‘ بلکہ ’’اقرأ ایجوکیشن سسٹم‘‘ کا قیام ہے۔ انہوں نے پاکستان میں غالباً پہلی بار ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی جس میں طلبہ مروجہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنے استاذ مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی سرپرستی میں اس کام کا آغاز بے سرو سامانی کے عالم میں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کام کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ ایک بڑے تعلیمی نظام میں تبدیل ہوگیا۔ 

پہلے کراچی شہر میں محلے محلے اس کی شاخیں قائم ہوئیں، پھر کراچی سے نکل کر ملک کے دوسرے شہروں میں یہاں تک کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایسے اداروں کا ایک جال قائم ہوگیا جس میں اس وقت ہزار ہا طلباء و طالبات دینی اور عصری علوم کی دولت سے بیک وقت بہرہ اندوز ہورہے ہیں۔ ان اداروں کے قیام میں انہوں نے اور ان کے رفقاء میں سے عزیزان گرامی مولانا مزمل حسین کپاڈیا اور مفتی خالد محمود نے جو انتھک محنت کی اور جو ناقابل فراموش قربانیاں دیں،وہ ہم سب کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ ان کا یہ صدقۂ جاریہ ان شاء اللہ عرصۂ دراز تک ان کے نامۂ اعمال میں حسنات کا ذخیرہ جمع کرتا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ مفتی محمد جمیل خان شہید کی مساعیٔ جمیلہ کو قبول فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، جو مشن وہ چھوڑ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جاری و ساری رکھتے ہوئے ان کی حفاظت و مدد فرمائے۔( آمین)