محمد ضیاء الحق
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مختلف اوقات میں مختلف انبیائےکرامؑ کو بھیجا گیا۔ کچھ انبیائے کرامؑ کو رسالت کے ساتھ نئی شریعت اور کتاب دی گئی۔ نبوت و رسالت کے اس سلسلے کا اختتام امام الانبیاء، سیدالمرسلین،خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ہوا اور آپﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا گیا۔
آپﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا ،کیونکہ آپﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ وصف بھی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو عطا فرمایا ہے کہ ان کی حیات پاک امت کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :بے شک، رسول اللہ ﷺکی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔تمام شعبۂ زندگی کے لیے راہ نمائی آپ ﷺکی سیرت پاک میں موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت جس معاشرے میں ہوئی، وہ اخلاق کی انتہائی پستی کو پہنچ چکا تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون تھا۔
طاقت ور اور کمزور کے لیے قانون الگ ہوتا ، اس بنیاد پر اس دور کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اعلان نبوت سے قبل کفار مکہ آپ ﷺکو صادق و امین کے ساتھ ساتھ بے مثال منصف بھی سمجھتے تھے۔ حجر اسود کی تنصیب کے لیے بھی آپ ﷺ کو منصف بنایا گیا اور آپ ﷺکے فیصلے پر عمل کیا گیا اور اس مبنی بر انصاف فیصلے کی وجہ سے اہل مکہ ایک بڑی اور خوں ریز لڑائی سے بچ گئے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کا دارومدار نظام عدل پر قائم ہوا اور ریاست مدینہ نے ایک ایسا نظام عدل دیا جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کر سکتی۔
حضور اکرم ﷺ کی عظیم ترین،قابلِ تقلید مثالی ریاست کی حاکمیت کی بنیاد بے لاگ عدل و انصاف کی پالیسی پر رکھی گئی۔ آپ ﷺ نے بطورِ منصف سیکڑوں فیصلے فرمائے، ہر فیصلے کی بنیاد عدل تھی، کسی کے حق میں فیصلہ ہوا تو محض اس کے استحقاق کی بناء پر، اُس کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئےکبھی بھی اُس کے کمزور یا طاقتور ہونے کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جب کسی کے خلاف فیصلہ ہوا تو اس کے پیچھے اُس شخص کے کمزور ہونے یا طاقتور ہونے کا فلسفہ کارفرما نہیں تھا۔ قضایا نمٹاتے ہوئے اپنی ذات کے مفادات کی طرف ذرہ بھر التفات نہیں ہوا۔ مختلف فریقوں کے درمیان عدالتی فیصلے کرنے کے دوران اپنے پرائے کی تقسیم کا شائبہ تک نہیں تھا۔خلاصہ یہ ہے آپ ﷺ کے عدالتی فیصلے ہی وہ بنیاد ہیں جن پر امت مسلمہ کے دورِ عدل کی عظیم الشان عدلیہ کی عمارت کھڑی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے پاس اگر کوئی معاملہ پیش کیا جاتا تو دونوں فریقوں کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے وقت دیتے تھے۔ اگر فیصلہ مصالحت کا ہوتا تو دونوں فریقوں کو صلح پر راضی کرتے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر ہر لمحہ عدل سے بھرپور تھا۔ آپ ﷺ نے ہر فرد، ہر طبقے، ہر معاشرےکے ساتھ نہ صرف یہ کہ عدل کی تعلیم دی، بلکہ خود سب کے ساتھ عدل فرماکر آنے والی اسلامی ریاستوں کو مضبوط کرنے کی سب سے پہلی اور اہم بنیاد فراہم کر دی۔ یہ بنیاد ریاستوں کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے، اِس طرف قدم بڑھانا ہوگا۔
قرآن کریم میں باعثِ تخلیق کائنات ،فخر موجودات محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ ﷺ کے بے مثال اسوۂ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جسے اس بات کا احساس ہو کہ ایک دن میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گا، اور وہ مجھ سے میرے اعمال کی باز پُرس فرمائے گا، میرا حساب و کتاب لے گا اور یہ احساس بھی اسی شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا اوراسے خوب یاد کرتا ہو۔، تم سب کے لیے، چاہے تمہارا تعلق انسانیت کے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو، امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ، امام ہو یامقتدی، منصف ہو یا مدّعی ،خطیب ہو یا طبیب، معلّم ہو یا متعلّم،روزے دار ہو یا شب بیدار، مجاہد ہو یا سپہ سالار،تاجر ہو یا خریدار، نوجوان ہو یابزرگ،بچہ ہو یا یتیم،شوہر ہو یاباپ۔ بہرحال تاریخ گواہ ہے کہ جب تک امتِ محمدیہ نے حضور اقدس ﷺکی سنت و سیرت کواپنا آئیڈیل بنائے رکھا، کامیابی وکامرانی اور عزت ووجاہت کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی معاشرے میں عدل کی بالادستی اور بے لاگ عدل کے تصور کو اجاگر کیا جائے۔ معاشرے کے ہر فرد کو عدل و انصاف فراہم کیا جائے۔ اُسوۂ رسولﷺ اور تعلیماتِ نبوی ؐ میں اس حوالے سے ایک اسلامی معاشرے کے لیے مکمل نمونہ اور روڈ میپ موجود ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر معاشرے سے ظلم و ناانصافی کا تدارک و سدباب کیا جاسکتا ہے۔
جمال احمد جمال
طلوعِ صبح ہے، تیرے وجود کا اعلان
غروبِ مہر ہے،فرضِ سَجُود کا اعلان
تُو کائنات کا خالق، خُدائے عزّ و جل
ہر ایک شئے میں ہے تیری نمود کا اعلان
عظیم تر نہیں کوئی بھی، ذات سے تیری
ہر اِک شِے کے لیے قیود کا اعلان
ہے چار سُو تِرا ذکرِ مُبیں ہی ہرلب پر
کہ فہمِ حال میں ہے، ہَست و بُود کا اعلان
جز ایک خلعتِ احساس، کیا ہے وجہِ یقیں
نگارِ ہستیِ عالم، شہود کا اعلان
ہر ایک خلق رَواں اپنی راہِ ہستی پر
نہیں کِیا کبھی تُونے، جمود کا اعلان
جمال، دِل میں جو پنہاں ہے اِک صدائے وجود
ہے یہ حقیقتِ شرح عبود کا اعلان