ہانگزو میں ہونے والے ایشین گیمز میں کروڑوں روپے کے خر چے پر شرکت کرنے والے پاکستانی دستے کی کار کردگی محض رسمی ثابت ہوئی، تادم تحریر پاکستان کے 262رکنی دستہ نے حصہ لیا، جس میں 147مرد اور 53خواتین اتھلیٹس شامل تھے، پاکستان نے24کھیلوں میں اپنی قسمت آزمائی، مگر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، پاکستان نے 25 کھیلوں میں انٹری کرائی تھی مگر عین مرحلے پر ای اسپورٹس سے دستبردار ہوگیا، جیولین تھرو کے ہیرو ارشد ندیم سے گولڈ میڈل کی امید تھی مگر وہ ہانگزو پہنچنے کے بعد ارشد ندیم گھٹنے کی انجری کا شکار ہونے کے باعث ایونٹ سے دستبردار ہوگئے۔
ان کے بارے میں اطلاعات ہے کہ وہ ایشین گیمز میں جانے سے قبل ہی مکمل فٹ نہیں تھے،ارشد ندیم ورلڈ چیمپئن شپ کے بعد سے ہی تکلیف میں تھے، 2 اکتوبر کو ان کا ایم آر آئی کرایا گیا تھا،جس میں انجری کی تصدیق ہوگئی تھی۔چیف ڈی مشن کے مطابق ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس کی تیاریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایشین گیمز سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ۔ ایشین گیمز میں پاکستان کے لئے مثبت پہلو صرف اسکواش میں دکھائی دیا جس میں پاکستان نے 2018 انڈونیشیا ایشین گیمز میں برانز میڈل جیتا تھا مگر اس بار پاکستانی اسکواش ٹیم سلور میڈل جیتنے میں کامیاب ہوگئی، قومی شوٹر کشمالہ طلعت نے 10 میٹر ایئر پسٹل مقابلوں میں برانزمیڈل حاصل کیا۔
پاکستان نے انڈونیشیا کے ایشین گیمز میں چار سال قبل چار برانز میڈلز حاصل کئے تھے ، اسکواش ٹیم ایونٹ،کراٹے میں نرگس، ایتھلیکٹس میں ارشد ندیم جیولین تھرو،کبڈی میں یہ میڈلز پاکستان کا نصیب بنے تھے، مگر چار سال بعد پاکستان کی کار کردگی میں مزید زوال آگیا، اس بارا یشین گیمز میں پاکستانی دستے کی انتہائی شرم ناک، مایوس کن کارکردگی نے ثابت کردیا ہے کہ چار سال کے دوران ہم نے اس اہم ترین ایونٹ کی کوئی تیاری ہی نہیں کی، ٹیبل ٹینس، تائی کوانڈو، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن،خواتین کر کٹ،ہاکی، ویٹ لفٹنگ، باکسنگ سمیت کئی ایونٹ میں ہماری شرکت محض رسمی نظر آئی، ایشین گیمز کے لئے ہماری منصوبہ بندی کیا تھی اس کی قلعی ہانگزو میں بے نقاب ہوگئی ، جہاں نہہاکیاں چل سکیں، نہ پیراک تیر پائے، ویٹ لفٹرز کے بازو شل، تو شُوٹرز کے نشانے خطا، ایتھلیٹس کی بھی ٹانگیں جواب دے گئیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا ذمے داران کی نااہلی و غیر سنجیدگی کی کوئی پوچھ گچھ ہوگی، کسی کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟؟
ایسا نہ ممکن ہے، ماضی میں بھی اولمپکس اور ایشین گیمز میں ناقص پر فار منس پر ملک بھر میں شور شرابہ ہوا، حکومت نے انکوائری کے لئے کمیٹی تشکیل دی،مگر نتیجہ صفر ہی رہا، ہمارے ملک کی بد قستمی یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کھیل کے شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے،18ویں ترمیم کے بعد ملک میں وزیر کھیل کوئی ہے ہی نہیں، کھیل کے شعبے کو وزارت بین الصوبائی رابطے کی نگرانی میں دے دیا گیا،2018 سے عمران خان حکومت کی وزیر ڈاکٹر فہیمیدہ مراز اور بعد میں پی ڈی ایم کے وزیر احسان مزاری نے فیڈریشنوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ ہی نہیں دی۔
انہوں نے خود کو زیادہ تر اسلام آباد کے ائیر کنڈیشن کمرے تک محدود رکھا، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ جاکر کھلاڑیوں کی کار کردگی، فیڈریشن اور ایسوسی ایشنوں سے رابطہ ہی نہیں کیا، اسی طرح 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے وزراء کھیل کو جو اختیار ملے انہوں نے بھی نچلی سطح پر مسائل کو حل کرنے پر توجہ ہی نہیں دی، وفاقی وزراء کو ان کے ماتحت عملے اور افسران نے قومی اسپورٹس پالیسی میں ہی الجھا کر رکھا، پانچ سال میں منتخب حکومتوں کے دور میں بھی نئی کھیلوں کی پالیسی کو حتمی شکل اور منظوری نہ مل سکی،قومی کھیل ہاکی کا یہ حال ہے کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود حکومت اور فیڈریشن کے درمیان تنازع جاری ہے، جبکہ ہاکی فیڈریشن نے بھی ایشین گیمز کی تیاری پر توجہ مرکوز نہیں رکھی۔
قومی ہاکی ٹیم کے کوچنگ اسٹاف کی بار بار تبدیلی نے ٹیم کا بیڑا غرق کردیا، ایشین گیمز کے لئے قومی ٹیم کی تیاری میںکوچز کی تبدیلی بری طرح اثر انداز دکھائی دی، حیرت انگیز طور پر ایشین چیمپئینز ٹرافی کے وقت سلیکشن کمیٹی نے جن کوچز کی مشاورت سے ایشین گیمز کے لئے ٹیم کا انتخاب کیاانہیں ایشین گیمز سے قبل فارغ کردیا گیا تھا، جبکہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پی ایچ ایف کے عہدے داروں کو معطل کئے جاتے وقت اسی کوچنگ اسٹاف کو برقرار رکھا تھا، ریحان بٹ اور محمد ثقلین کو ماضی کی شکایات کے باجود پی ایچ ایف نے ایشین چیمپئینز ٹرافی کے لئے کوچنگ کی ذمے داریاں دی تھیں، پی ایچ ایف کے حکام نے غیر ملکی کوچ ایکمین کے ساتھ کام کرنے والے کوچز کو بھی ان سے معاہدے کے خاتمے کے بعد ٹیم کے ساتھ رکھنے کو ترجیح نہیں دی، اور نہ ہی ماضی میں قومی ٹیم کے ساتھ اچھے نتائج حاصل کرنے والے کوچز شہناز شیخ، سمیر حسین، قمر ابراہیم، حنیف خان، حسن سرادر، خالد بشیر، قمر ضیاء ، طاہر زمان جیسے کوچز کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی،ان کوچز کے دور میں قومی ٹیم کی کار کردگی میں خاصی بہتری دیکھنے میں آئی تھی، پی ایچ ایف کے حکام کا کہنا ہے کہ قومی ٹیم کے لئے غیر ملکی کوچ ہی بہتر ثابت ہوسکتا ہے جو فزیکل فٹنس پر بھی توجہ دیتا ہے۔
ایشین گیمز کے نتائج اور دستے کی واپسی کے بعد نہ پی ایس بی اور نہ ہی پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اس ناقص کار کردگی کی ذإے داری قبول کرے گی، اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ذمے دار یہ دونوں کھیلوں کے بڑے ادارے ہیں، پی او اے کے حکام کو ایک بڑے ایونٹ کے بعد ہی اپنی فیڈریشنوں سے اگلے چار سال بعد ہونے والے ایونٹ کی تیاری اور نئے کھلاڑیوں کی تلاش اور انہیں گروم کرنے کی منصوبہ بندی کا پلان طلب کرنا چاہئے، اس کے بعد پی ایس بی سے رابطہ کر کے اس منصوبہ بندی کو آگے بڑھانا چاہئے، تاکہ ہم اگلے چار سال کے دوران ایک اچھا اور مضبوط دستہ تیار کر سکیں، چین، جاپان اور کوریا کے علاوہ بھارت کے کھلاڑیوں نے چین کے گیمز میں ثابت کردیا کہ ان کے کھیلوں کے حکام اپنی کرسیوں سے زیادہ ملک کے لئے کھیل کے شعبے میں اچھے اور مثبت نتائج بھی حاصل کرسکیں۔