عرب اسرائیلی جنگ کی پچاسویں سالگرہ پرحماس نے اُس وقت ایک عالم کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کرلیا بلکہ یہ بھی یاد دلایا کہ فلسطینیوں کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دئیے بغیر اسرائیلی بھی سکون سے جی نہ پائیں گے۔ خبروں کےمطابق اسرائیلی صبح اُس وقت شام میں تبدیل ہوگئی جب حماس نے پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کی، اس دوران ان گنت فوجیوں سمیت سینکڑوں اسرائیلی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔ آپریشن الاقصیٰ طوفان کے تحت فلسطینی مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مددسے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا، یہ سلسلہ تادم تحریر دراز ہے، اس کامیاب آپریشن پر غزہ کے کئی علاقوں میں فلسطینیوں نےجشن منایا، دوسری طرف اسرائیل میں شدید خوف ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن مقدس مقامات غاصب اسرائیل کے قبضے سے ضرور آزاد ہونگے، تاہم تاریخ شاہد ہے کہ بعض مسلم غداروں ہی نے مسلمانوں کی غلامی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
بیت المقدس تیرہ سو سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں نے اسے واپس لینے کیلئے 12صلیبی جنگیں لڑیںلیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، بالآخر یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کاخون بہایا۔ آپ حیران ہونگے کہ آخری صلیبی جنگ میں یہود، نصاریٰ، ’’مسلم‘‘ یک جان تھے۔ آئیے تاریخ کی گواہی لیتے ہیں۔ نلسن ’’تاریخی جنگ‘‘ میں رقم طراز ہے’’آخری صلیبی جنگ عروج پر تھی، اگر سینٹ لوئس، ریمنڈ اور رچرڈ شاہ انگلستان ان ’’حیرت افزا‘‘ افواج کو دیکھتے تو ان کی روحیں اس وجہ سے متحیر ہو جاتیں کہ اس کا بہت قلیل حصہ مغربی اقوام (یورپ) پر مشتمل تھا، الجزائری اور ہندی مسلمان، عرب قبائل، ہندوستان کے سینکڑوں فرقوں کے ماننے والے، افریقہ کے حبشی اور یہودی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ’’نصاریٰ کے مقدس شہر‘‘ کو آزاد کرا لیا تھا‘‘ فلسطین کو Crusader's Land (صلیبی جنگوں کی سرزمین) بھی کہا جاتا ہے۔ ان 12صلیبی جنگوں کے بارے میں مورخین کا اندازہ ہے کہ ان میں 60 لاکھ عیسائی مارے گئے، لیکن پھر بھی وہ مقدس مقام مسلمانوں سے نہ چھین سکے۔ لیکن مکار دشمن کی سازش کے تحت برصغیر کے بعض فتویٰ فروشوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ خود عیسائی دنگ رہ گئے۔ اس سازش میں شریف مکہ حسین کی عرب قوم پرستی و ترکوں کیخلاف مخاصمت جہاں کار فرما تھی تو دوسری طرف ہندوستان کے دین فروش بھی بروئے کار تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ8اور 9؍دسمبر1917ء کی درمیانی شب جب یہ لشکر باقی علاقہ روندتا ہوا مقام مقدس پہنچا تو بغیر جنگ کئے ترکوں کے آخری سپاہی نے بیت المقدس خالی کر دیا، اس طرح چار سو سالہ عثمانی دور یہاں اختتام پذیر ہوا۔ 10دسمبر کی صبح کو جنرل شیا، کمان افسر 60 ڈویژن اور 11دسمبر کو جنرل ایلنبائی مع اپنے اسٹاف کے پیدل فاتحانہ انداز میں باب یافا سے بیت المقدس میں داخل ہو گیا۔ بعدازاں سلطنت برطانیہ نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ یہ بھی صلیبی جنگ تھی۔ مورخین نے اسے تیرہویں صلیبی جنگ قرار دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق جنرل ایلنبائی سے قبل سوا سات سو سال تک یروشلم نے کسی عیسائی فاتح یا برطانوی سپاہی کو نہیں دیکھا تھا...! چرچل اپنی تصنیف ’’دی گریٹ وار‘‘ میں لکھتاہے ’’8 دسمبر 1917ء کو ترک بیت المقدس سے دستبردار ہو گئے، ان کے خاتمے کے بعد برطانوی کمانڈر انچیف برطانیہ کے زیر ِکمان ہندوستانی اور عرب مسلمانوں کی موجودگی میں ’’واہ واہ‘‘ اور ’’مرحبا، مرحبا‘‘ کے نعروں کیساتھ شہر میں داخل ہوا‘‘۔ جارج ٹاؤنسنڈ اپنی کتاب ’’گراؤنڈ ورک آف برٹش ہسٹری‘‘ کے صفحہ 757پر لکھتا ہے۔ ’’فلسطین میں شاندار پیش قدمی کے انصرام کا سہرا خاص طور پر ہندوستانی مسلمان افواج کے سر ہے‘‘۔ مسٹر لاول ٹامس اپنی کتاب ’’عرب میں لارنس کے ہمراہ‘‘ میں کیپٹن لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے اس فتح کا ایسا Holy Warrior (مقدس جنگجو) قرار دیتا ہے جس نے دین فروشوں کو خریدا۔ یوں دین فروش ’’جہادی فیکٹری‘‘ سے ایسی ایسی پیشن گوئیاں منظر عام پر لائے کہ سادہ لوح مسلمانوں کے پاس قائل ہونے کےسوا کوئی منطق ہی نہیں تھی۔ آج بھی دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ بعض مسلم ممالک اسرائیل سے ’’راہ ورسم‘‘ کیلئے کس قدر بے چین ہیں، خدا کرے کہ حماس کے ایسے ہی حملے کسی نتیجے پر منتج ہوں اگر سردست ایسا نہ بھی ہو تو جہاں اس سے روڈ ٹو اسرائیل کا روڈ میپ متاثر ہو گا وہاں ایسے ممالک تک یہ پیغام بھی جائیگا کہ حق پرست دنیا اور فلسطینی یک جان ہیں۔ فیض صاحب نے فلسطین ہی سے متعلق کہا تھا۔
ہم جیتیں گے!
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زَہَق الباطِل