حالیہ چند دنوں میں مشرق ِ وسطیٰ کی صورتحال خطے کی تاریخ کی بدترین نہج پر پہنچ گئی ہے، غزہ کی پٹی جیسے پسماندہ علاقے سے اسرائیل کی سرحد کے اندرایسے منظم حملوں کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقے غزہ پٹی پر بدترین فضائی حملے جاری ہیں ، اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جوابی کارروائی میں حماس کے پندرہ سو جنگجو ؤں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے ، عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ دونوں اطراف سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے، گزشتہ ہفتے سے جاری اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد غزہ کے رہائشی دربدر ہو چکے ہیں، غزہ کی سڑکوں پر جابجا جلی ہوئی گاڑیاں اور لاشیں بکھری ہوئی ہیں،ہر طرف سڑکوں،گلیوں یا سکولوں میں پناہ گزین نہتے فلسطینیوں پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں، اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے غزہ کی پٹّی پر اسرائیل کی بہیمانہ بمباری اور حماس کے زیرانتظام علاقے کا مکمل محاصرہ کرنے کو’فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم‘ قرار دیا ہے۔فلسطین کی موجودہ تشویشناک صورتحال نے مجھے آج سے چندسال قبل تحریرکردہ اپنا ایک کالم یاد دلا دیا جسکا آغاز میں نے یہ کیا تھا کہ "مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کشیدگی کے بعد آخرکار سیزفائر ہوگیا ہے،تاہم غزہ میں حالیہ تصادم متعدد معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بنا ہے جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے،آج عالمی سطح پر جنگ بندی کا خیرمقدم کیا جارہا ہے لیکن اموات کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں،میری نظر میں جنگ بندی ایک وقتی حل ہے، سرزمین فلسطین میں جنگ کا شعلہ کسی بھی وقت ایک مرتبہ پھر بھڑک سکتا ہے۔" میں نے اس وقت بھی اپنے ایک گزشتہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطین تنازع دنیا میں ایک نئی تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ بن سکتا ہے،آج جب میں اپنا یہ ہفتہ وار کالم تحریر کررہا ہوں تومیری پیش گوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے اور ایک مرتبہ پھر عالمی برادری کی نظریں فلسطین کی جانب مرکوز ہوچکی ہیں، گزشتہ ایک ہفتے سے تمام عالمی اخبارات ، ٹی وی چینل نشریات اور سوشل میڈیا پر حالیہ فلسطین صورتحال چھائی ہوئی ہے۔ جغرافیائی طور پر غزہ کی پٹی کا کُل رقبہ فقط 365کلومیٹر ہے جہاں پر بیس لاکھ سے زائد لوگ بنیادی انسانی سہولیات سے محروم موت کے پہرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، غزہ کا زمینی بارڈر مصر کے ساتھ 11کلو میٹر جبکہ اسرائیل کے ساتھ 51کلو میٹر طویل ہے، تاہم دونوں ممالک نے اپنی سرحدیں غزہ کے لوگوں کیلئے بند کی ہوئی ہیں،غزہ کے آمدورفت کے ذرائع بشمول فضائی اور سمندری راستوں کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، نہ کسی کو غزہ کی تنگ پٹی میں آنے کی اجازت ہے اور نہ کسی کو غزہ سے باہر جانے کی،عالمی مبصرین کے مطابق غزہ کی پٹی زمین پردورجدید کی ایک ایسی جیل ہے جہاں کا ہر باسی عالمی بے حسی کی وجہ سے ظلم و بربریت اور نسل کشی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے، غزہ کا شمار کرہ ارض کے ان مقامات میں سرفہرست ہے جہاں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ مانیٹرنگ کی جاتی ہے، اسرائیل کے ادارے سیٹلائٹ ، ڈرونز اور سی سی ٹی وی کے ذریعے ہردس منٹ میں غزہ کے ہر مربع میٹر کی تصویر کا جائزہ لیتے ہیں، گزشتہ ایک عرصے سے عالمی سطح پر سائنسی میدان میں اسرائیل کی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) کی صلاحیتوں کا چرچا ہر زبان پر ہے،کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ برسوں میں فلسطینی تنازع میں مصنوعی ذہانت کا مہلک استعمال کرتے ہوئے نہ صرف عسکری اہداف کا انتخاب کیا بلکہ مختلف حملوں کو بھی ناکام بنایا۔ایسے حالات میںیہ حیران کُن امرہے کہ غزہ جیسے پسماندہ علاقے سے فلسطینی جنگجو موٹرسائیکل، پیراگلائیڈرز اور کشتیوں پر نہایت منظم انداز سے اسرائیل کی بارڈر کراس کرکے کامیاب حملہ کرسکیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جان بوجھ کر حملہ آوروں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے تاکہ پھر بعد میں جوابی کارروائی کا جواز بناکر فلسطینیوں پر طاقت آزمائی کی جاسکے۔مجھے یاد ہے کہ اس قسم کی قیاس آرائیاںنائن الیون کے موقع پر بھی کی گئی تھیں جب امریکہ نے نیویارک کی پہچان ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے جواب میں افغانستان کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم عالمی اداروں کی ایسی کچھ رپورٹس میری نظر سے گزری ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی سرحد کے اندر کامیاب حملے درحقیقت مصنوعی ذہانت پر بے انتہا انحصار کرنے کا نتیجہ ہیں، اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی مصنوعی ذہانت کی جدیدصلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایسی حکمت عملی مرتب کی جس سے کچھ بھی غیرمعمولی محسوس نہ ہو، غزہ کی مانیٹرنگ کرنے والوں کو یہ ڈیٹا فراہم کیا جاتا رہا کہ سب کچھ معمول کے عین مطابق ہے اور اسرائیل کی مصنوعی ذہانت الگورتھم اورمشین لرننگ میں اُلجھ کر انسان کی اصلی ذہانت کے عزائم کو سمجھنے سے آخری وقت تک قاصر رہی۔آج جس طرح سے عالمی لیڈران کے بیانات منظرعام پر آرہے ہیں، اس سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ دنیافلسطینی تنازع پر دو حصوں میں بٹ کر ایک مرتبہ پھر تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے،تاہم حالیہ عرصے میں خطے میں اسرائیل کے حوالے سے پیش رفت مثلاََ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کی خبروں،بھارت میں منعقدہ جی 20 اجلاس اور دیگر عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے تمام خطوں سے امن پسند قوتیں اپنا کردار ادا کریں اور فلسطینی تنازع کا مکمل اور دیرپا حل تلاش کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)