صدائے زندگی غفار انقلابی آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کی حکومت قائم ہوئےتقریباً پانچ ماہ ہو چکے ہیں، ان کو پہلے اپنی کابینہ بنانے اور اب ان وزراء کو محکمےالاٹ کرنے میں تاحال دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انہوں نے آتے ہی ترقیاتی رقم اپنے آبائی ضلع بھمبر کے ہسپتال کو جاری کی۔ وزیراعظم نے آتے ہی اپنے سمیت تمام سابق وزرائے اعظم کی پنشن اور دیگر متعدد مراعات کو ریگولرائز کروا لیا اور جواز یہ دیا کہ ان سابق وزرائے اعظم کو یہ مراعات پہلے ہی حاصل تھیں، میں نے تو ان مراعات اور پینشن کو صرف ریگولرائز کیا ہے۔ اس عرصہ کے دوران آزاد کشمیر کے ملازمین اور پنشنر سڑکوں پر تھےکہ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ کیا جائے، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پائوں کے مصداق اور اول خویش بعد درویش کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پاکستان کے سرکاری ملازمین کے برابر اضافے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس اضافہ کی رقم جو کہ اربوں روپے بنتی ہے آزاد کشمیر کے اپنے بجٹ سے پوری کی جائے گی۔ وزیراعظم انوارالحق چوہدری کا آزاد کشمیر کے ملازمین کی تنخواہوں کو پاکستان کے ملازمین کے برابر کرنا اور انیس ارب روپے کی کثیر رقم اپنے ترقیاتی بجٹ سے پورا کرنا ایک قابل ستائش عملی قدم ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر نے 20اپریل2023کو اپنا موجود منصب سنبھالا تھا، تب سے لے کر آج تک ان کو پانچ ماہ کے عرصہ میں گڈ گورننس، ترقیاتی و غیر ترقیاتی معاملات، آٹے پر سبسڈی، بجلی بلات پر ناجائز ٹیکسز اور پاکستان کے ساتھ پالیسی ایشو کے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ راولاکوٹ سے چلنے والی مفت بجلی اور آٹے پر سبسڈی گلگت بلتستان کے برابر کرنے کی تحریک تا حال جاری ہے، مفت بجلی مہیا کرنے کی تحریک پورے آزاد کشمیر میں پھیل چکی ہے، اگست کے بجلی کے بلات عوامی ایکشن کمیٹیوں کے کہنے پر جمع نہیں ہوئے، متعدد مقامات پر بالخصوص راولاکوٹ میں کروڑوں کے بجلی کے ناجائز ٹیکسوں کے بجلی کے بلات اجتماعی طور پر نظر آتش بھی کئے گئے ہیں، وزیراعظم آزاد کشمیر نے پونچھ ڈویژن کے دورے کے دوران دھرنا دینے والوں کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے مگر اس پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ پورے آزاد کشمیر کی ایکشن کمیٹیوں کی ایک متفقہ ’’تیس رکنی مرکزی عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ سے ہی مذاکرات کئے جائیں، وزیراعظم آزاد کشمیر نے راولاکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں دھرنا دینے والے لوگوں کے 9۔99فیصد مطالبات پورے ہو چکے ہیں، وزیراعظم کا اشارہ اس جانب ہے کہ جولائی میں جو بلات ادا کئے گئے تھے ان ہی بلات کے مطابق اگست، ستمبر اور آگے کے بلات جاری ہوں گے اور اس طرح آئندہ بجلی کے بلات کے ٹیکسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ آٹے پر سبسڈی کے معاملے میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ آٹے پر ہم پہلے ہی رعایتی قیمت اپنے بجٹ سے دے رہے ہیں اور آٹے پر یہ رعایت آزاد کشمیر میں جاری رہے گی اور یہ کہ آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں سمیت کسی بھی جگہ آٹے کی قلت نہیں ہونے دی جائے گی۔ راولاکوٹ ڈویژن کے علاوہ مظفرآباد ڈویژن اور میرپور ڈویژن میں بجلی کے بلات جمع نہ کروانے کا بائیکاٹ جاری ہے، میرپور چوک شہیداں دھرنے میں بیٹھے عوامی ایکشن کمیٹی کے نوجوانوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے چوک شہیداں سے لے کر بجلی کے چیف انجینئر کے دفتر تک پرامن احتجاجی مارچ کیا، مفت بجلی حق ہمارا، ڈیم ہمارا بل تمہارا نامنظور کے نعرے لگائے اور کثیر تعداد میں ناجائز ٹیکسوں سے بھرے لاکھوں روپے کے بل محکمہ برقیات کے دفتر کے سامنے نظر آتش کئے، بجلی بلوں کے خلاف ریاست بھر کی طرح پونچھ ڈویژن میں بھی بجلی بلات کا بائیکاٹ کیا گیا، عوامی ایکشن کمیٹی مظفرآباد کی ایما پر بھی بجلی کے بلات دریائے نیلم میں پھینک دیئے گئے، اس طرح کوٹلی، باغ، دھیر کوٹ، ہجیرہ اور عباس پور کے عوام نے بھی بجلی کے بلات کا بائیکاٹ کیا۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے ابتدا میں مفت بجلی کے مطالبے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ مفت بجلی کا مطالبہ بالکل ناجائز ہے اور یہ کہ آج کے دور میں موت بھی مفت نہیں ملتی، پھر کچھ ہفتے بعد یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ دو سو یونٹ بجلی گھریلو صارفین کو مفت دی جاسکتی ہے، مفت بجلی کا مطالبہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں ہے، مفت بجلی کے خواب منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران ساٹھ کی دہائی میں لاکھوں اجڑنے والے میرپوریوں کو دکھائے گئے تھے، ان کشمیریوں کو آج تک بجلی مفت تو نہ مل سکی، مگر اکیسویں صدی میں دلی کی ریاست کے ایماندار وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اروند کیجریوال نے یہ خواب سچ کر دکھایا، اروند کیجریوال نے دلی میں2014میں حکومت میں آتے ہی بجلی کمپنیوں کو بلایا اور دہلی کے اندر بجلی کے نرخوں میں اضافہ روک دیا اور کہا کہ آپ پہلے کی حکومتوں کو پیسے دیتے تھے یا نہیں ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن اب دہلی کے اندر بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ایماندار حکومت آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں مانگے گی لیکن عوام کا بجلی کا بل نہیں بڑھنا چاہیے اور دہلی کے اندر بجلی کے نرخ پچھلے آٹھ سالوں سے آگے نہیں بڑھنے چاہیں، دہلی میں بجلی کے ریٹ جو 2014 میں تھے آج بھی وہی ہیں، اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ہم نے کرپشن ختم کر کے بہت پیسہ بچایا اور اس سے ہم نے عوام کو سبسڈی دی، دلی کی ریاست میں گذشتہ آٹھ سالوں سے تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین کو نہ صرف مفت بلکہ چوبیس گھنٹے بجلی مہیا کی جارہی ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر نے متعدد بار کہا ہے کہ نہ میں کرپشن کروں گا اور نہ کسی کو کرپشن کرنے دوں گا، انہوں نے پروٹوکول کے بغیر دورے کرنے اور پرائم منسٹر ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے، انہوں نے جس طریقے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ قول اور فعل میں مطابقت پیدا کی جائے، اپنی ایماندار حکومت کی طاقت کو آزاد کشمیر کے لوگوں کے حق میں استعمال (deliver) کیا جائے۔ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی مفت بجلی خوروں اور اشرافیہ کی مفت بجلی کی مراعات ختم کی جائیں اور بقول ایماندار وزیراعظم کے آزاد کشمیر میں اسی فیصد بجلی چوری کو روکا جائے اور آزاد کشمیر کی اپنی بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنی تشکیل دی جائے، منگلا اور نیلم جہلم پاور سٹیشن سے براہ راست بجلی حاصل کی جائے اور تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو مفت بجلی دی جائے اور وہ اشرافیہ جن کے کتے بھی ایرکنڈیشن والے کمروں میں سوتے ہیں پر، جتنا مرضی ٹیکس اور فیول چارجز لگائے جائیں، آزاد کشمیر اسمبلی کو فعال کیا جائے اور عوامی ایکشن کمیٹیوں کے جائز مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ ان مطالبات پر عملدرآمد کے لئے قانون سازی کی جائے، آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی کے لوگ اپنے جائز حقوق کے لئے جو پرامن جدوجہد کر رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ مرکزی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق ان سے سنجیدہ مذاکرات کئے جائیں اور ان کے جائز مطالبات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے،300یونٹ مفت بجلی، گلگت کی طرز پر آٹے پر سبسڈی، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے نتیجے میں ہونے والے ماحولیاتی تبدیلیوں کا تدارک، منگلا ڈیم آپ ریزنگ کی معاہدے کے مطابق رٹھوعہ چک ہریام پل کو مکمل کیا جائے، آزاد کشمیر کے عوام ایک انقلاب کے دھانے پر کھڑے ہیں وہ نہ تو حکومت گرانا چاہتے ہیں اور نہ ہی خود حکومت چاہتے ہیں بلکہ اپنے جائز حقوق کے لئے پر امن جدوجہد کے لئے متحد ہیں، آزاد کشمیر کے ایماندار وزیراعظم اگلا قدم بڑھاتے ہوئے عوام کے مطالبات کو پذیرائی بخشنی چاہیے یا پھر گھر چلا جانا چاہئے۔