یہ کہنا درست ہے کہ فلسطین کا مسئلہ خالصتاً انسانی ہے اس لیے ہر دردمند شخص کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کی پراسرار اور مقدس سرزمین اپنے مذہبی عناصر کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ اس سرز مین کو کئی انبیا علیہم السلام کی آخری آرام گا ہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا قبلۂ اول بھی وہیں ہے اوراللہ کے آخری نبی اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ سلم اسی ارضِ مقدس سے اپنے سفرِ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
پھر سیاسی اور تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو فلسطینی عوام جس سرزمین پر صدیوں سے بس رہے تھے وہاں مغربی استعمار نے سراسر ناانصافی اور ظلم سے انیس سو اڑتایس میں اسرائیل نامی ایک یہودی ریاست قائم کردی۔ فلسطینی جو کل تک اکثریت میں تھے اقلیت میں بدل دیے گئے۔ ہزاروں فلسطینی اپنی زمینوں سے ، گھروں سے نکال دیے گئے، دربدر ہوگئے، کس مَپُرسی کا شکار ہوگئے۔ لیکن اسرائیل کی مغربی حمایت جار ی رہی اورآج تک جاری ہے۔
اگرچہ ان وجوہات کی بنا پر مغربی ممالک میں بھی کچھ حلقوں میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ فلسطین کے عوام کی جد و جہد ِ آزادی پاکستان کے عوام کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بننے سے پہلے فلسطین کے حق میں قرار داد منطور کی تھی بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی ملّی طور پر ہم اسے عالم ِ اسلام کا ایک مسئلہ سمجھتے آرہے ہیں۔
سفارتی اور سیاسی میدان سے ہٹ کر اگر ادبی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے اہلِ قلم نے فلسطین کے مسئلےکو اپنی تخلیقی تحریروں میں ابتدا ہی سے پیش کیا ہے ۔ اردو کے اکثر و بیشتر اہل قلم اپنی شاعری اورنثر کے ذریعے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو بھی اجاگر کرتے رہے ہیں اور اپنی تحریروں سے انھوں نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ہے۔
ان میں سے کچھ کا مختصر ذکرپیش ہے۔ مختصر اس لیے کہ یہ موضوع بہت بسیط وعریض ہے اور اس موضوع پر دو کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، ایک فتح محمد ملک کی فلسطین اردو ادب میں اور دوسری محمد افتخار شفیع کی اردو ادب اور آزادیِ فلسطین ۔ چنانچہ ان کتابوں کی مدد سے یہاں کچھ مختصرا حوال ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔
عرض ہے کہ یہ خیال رہے کہ ترقی پسند اور غیرترقی پسند دونوں مکاتب ِ فکر کے اہل قلم نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے فلسطین کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ۔ ترقی پسندوں کے لیے فلسطین کے مسئلے کی اہمیت یہ تھی کہ اس کی آزادی کی تحریک چلانے والی تنظیم الفتح سوشلسٹ اور روسی افکار اور امداد کے زیر ِ اثرتھی اور وہ اسے انسانی نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے۔ جبکہ کچھ لکھنے والے مسلم قومیت اور ملی جذبات کے زیر اثر تحریک ، آزادیِ فلسطین کے حامی رہے۔ کچھ لوگ جو نہ ترقی پسند تھے اور نہ مسلم قومیت کے حامی وہ جدیدیت اور سیکیولر خیالات کے زیر اثر فلسطین کی حمایت کرتے رہے۔
آج کل تحریک ِ آزادی حماس زیادہ زور وشور سے چلا رہی ہے وہ دینی جذبے سے بھی سرشار ہے جبکہ الفتح کا اثر ورسوخ امریکا اور اسرائیل سے مفاہمانہ تعلقات ، کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور اوسلو مذاکرات کے بعد کم ہوگیا ہے۔ اگرچہ محمود عباس صدر ہیں لیکن وہ یاسر عرفات کے جانشین ہیں اور اُنھیِں کی طرح تحریک مذہبی جذبات پر نہیں چلاتے۔
٭…اردو شاعری میں فلسطین
اردو ادب میں فلسطین کے مسئلے کا ذکر تو قیا ِ مِ پاکستان سے قبل ہی سے ملتا ہے جب علامہ اقبال نے ’’ضرب ِ کلیم‘‘ کی نظم ’’شام و فلسطین ‘‘میں اس کو موضوع بنایا ۔ فلسطین کی سرزمین پریہودیوں کے حق اور اس ضمن میں تاریخی وابستگی کے دعوے کو علامہ نے یوں مسترد کیا:
ہے خاک ِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل ِ عرب کا
لیکن اقبال یہ بھی جانتے تھے کہ مغرب یہودیوں کے معاشی جال میں پھنسا ہوا ہے اس لیے مسلمانوں کو انگریزوں یا لیگ آف نیشن جیسی عالمی تنظیموں سے کچھ نہیں ملے گا اور کہا کہ:
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لند ن میں
فرنگ کی رگ ِ جاں پنجہ ٔ یہود میں ہے
انیس سو اڑتالیس میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد عربوں میں مایوسی اور دل شکستگی کے آثار تھے لیکن یہ لاوا اندر ہی اندر پک رہاتھا اور بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کچھ عرصے بعد مصر میں جو تبدیلی جمال عبدالناصر کی قیادت میں رونما ہوئی اس میں عرب دنیا کی اس بے چینی کا بھی ہاتھ تھا، بعد ازاں پوری عرب دنیا میں انقلاب کے نعرے گونجنے لگے۔
اگرچہ انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست نے جہاں عربوں اورعام مسلمانوں میں مایوسی اور بے بسی کا احساس پیدا کیا وہاں خود عربی اور فلسطینی ادب میں مسئلۂ فلسطین کو اجاگر کرنے کی ایک نئی لہر اٹھی اور ہمارے ہاں اردو ادب میں بھی اہل قلم نے اس درد کو محسوس کیا ۔ مثلاً ن م راشد نے اپنی طویل نظم دل مرے صحرا نوردِ پیر دل(جو ان کے مجموعے لا برابر انسان میں شامل ہے )’’آگ‘‘ اور’’ صحرا ‘‘اور ’’ریگ‘‘کی تشبہیات اور علامات کے ذریعے ایمائی انداز میں فلسطین کے مسئلے کو پیش کیا۔ کہتے ہیں :
ریگ جب اٹھتی ہے تو اُڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب
ریگ اے صحرا کی ریگ
ان اپنے جاگتے ذرّوں کے خوابوں کی نئی تعبیر دے
فیض احمد فیض یوں تو ترقی پسند تھے اور ان کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطین سے ہمدردی تھی لیکن اپنے قیام ِ بیروت کے عرصے میں اور الفتح کے سربراہ یاسر عرفات سے براہ راست تعلق کے نتیجے میں انھوں نے فلسطین کے حالات اور اس کے زخم زخم جسم کو بذات ِ خود بھی دیکھا (فلسطینی رہنما یاسر عرفات بھی سیکیولر اور سوشلسٹ خیالات کے حامل تھے) اور فلسطین اور اہل فلسطین کے لیے گہرا دکھ ان کی شاعری میں ابھرا جو ان کی متعدد نظموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنی نظم سر ِ وادیِ سینا میں فیض نے جہاں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی وہاں مسلمان حاکموں اور عرب دنیا کے بعض بڑوں کو’’ مفتیِ دیں ‘‘کہہ کر ان کی مصلحت پسندی کو حکمت کا نام دینے پر بھی طنز کیا اور اسے ایک طرح سے جارح کی تائید قرار دیا ۔ کہتے ہیں :
اب رسم ِ ستم حکمت ِ خاصان ِ زمیں ہے
تائید ِ ستم مصلحت ِ مفتی ِ دیں ہے
ان کے علاوہ کئی شعرا نے فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کی ، مثلاً احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، نعیم صدیقی، ابن ِ انشاء، ظہیر کاشمیری، ضمیر جعفری، احمد فراز، ادا جعفری ، شہزاد احمد، محمود شام،یوسف ظفر، خار غزنوی، اصغر ندیم سید اور دیگر کے شعرا نے مسجد ِ اقصیٰ کی پامالی، معصوم بچوں کی شہادت اور مسلمان حکم رانوں کے زبانی جمع خرچ پر بہت پُر تاثیر نظمیں لکھیں۔ انشا کی ایک نظم دیوار ِ گریہ سے چند مصرعے ملاحظہ کریں جن میں ہنوئی (یعنی ویت نام ) کی علامت کے ذریعے اپنے عرب بھائیوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمت نہ ہارناویت نامی بھی بیس سال سے امریکا سے لڑرہے ہیں:
یا اخی یا اخی
آدکھائیں تجھے تری دل جوئی کو
دور مشرق میں احرار ِ ہنوئی کو
ان کا دشمن شکستوں سے بے حال ہے
ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے
٭…اردو نثر میں فلسطین
اردو نثر میں بھی فلطین کا مسئلہ اور اہل فلسطین کی حالت ِ زار کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً انتظار حسین یوں تو جدیدیت کے حامی ہیں لیکن فلسطین کا ذکر کرتے ہیں ، گو اپنے اساطیری یا داستانی انداز میں علامات اور کنایات کی مدد سے ہی سہی۔ انتظار صاحب کا افسانہ کانا دجال دراصل اسرائیلی فوجی جرنیل موشے دایان کی علامت ہے۔ موشے دایان نے عرب اسرائیل جنگ میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور روایت کے مطابق کانا دجال ایک فتنہ ہے۔ افسانے کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے کہ پورا گھر جو عرب اسرائیل جنگ کی خبروں اور مسلمانوں کی فتح اور بیت المقدس کی آزادی کا منظر ہے اور اباجان پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا۔ لیکن جب خبر آتی ہے کہ مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے تو اباجان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اس موضوع پر انتظار حسین کا دوسرا افسانہ شرم الحرم ہے جس کے کردار دو صحافی ہیں جو ریڈیو قاہرہ سے خبریں سن کر ان کا انگریزی ترجمہ کرتے ہیں۔ لیکن یروشلم کے سقوط کی خبر پر ایک کردار گریہ کرتا ہے اور اپنا عمامہ زمین پر پھینک دیتا ہے۔ عمامہ جو عرب دنیا میں عزت کی علامت ہے خاک میں گرنا اس ذلت اور شکست کی علامت ہے جو عربوں کو اسرائیل کے ہاتھوں اٹھانی پڑی۔ اس میں بھی موشے دایاناور اس کے کانا دجال ہونے کا ذکر ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے مسلمانوں پر طنز بھی کیا ہے کہ جس طرح دجال کا خاتمہ کرنے کے لیے عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اسی طرح مسلمان بھی موشے دایان کے خاتمے کے لیے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
جن لکھنے والوں نے اردوافسانے میں فلسطین کو موضوع بنایا ان میں قرۃ العین حیدر، قدرت اللہ شہاب، مظہر الاسلام، سمیع آہوجہ، خالد سہیل، انورخواجہ، جمیل احمد عدیل، وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں تفصیل دینا ممکن نہیں۔
اردو سفرنامے کو دیکھیں تو قدرت اللہ شہاب اور مستنصر حسین تارڑ نے اس موضوع پر اپنے سفرنامے میں اظہار خیال کیا ہے۔ اردو میں تراجم کی روایت اس لحاظ سے بھرپور ہے کہ اس میں مختلف اور متنوع موضوعات قاری کے ذہن کو وسعت بخشتے ہیں اور ان موضوعات میں فلسطین بھی شامل ہے۔ جن مترجمین نے فلسطینی ادب سے فکشن کے تراجم کیے ان میں محمد حمید شاہد، آصف فرخی، امجد طفیل، مسعود اشعر ، کشور ناہید وغیرہ شامل ہیں۔
فلسطینی شاعری کے تراجم میں محمد کاظم نے اپنا کمال دکھایا ۔ ان کے علاوہکشور ناہید، امجد اسلام امجد، انور زاہدی، اسما رشید، منو بھائی اور بعض دیگر لکھنے والوں نے ہم تک فلسطینی شاعری اور اس کے ذریعے اہل فلسطین کے خیالات اور جذبات ہم تک پہنچائے۔