• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہٹلر اور اسرائیلیوں میں کوئی فرق نہیں

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
میرے ذہن میں اسرائیل کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا ناجائز قابض ہونے والے کو ان قبضوں پر دفاع کا حق ہوتا ہے یا دنیا اسے خود کے دفاع کا حق کس طرح تسلیم کرتی ہے جب کہ جو اس ناجائز قبضے پر اپنے حق کی آواز اٹھاتے ہیں انہیں جارح قرار دیتی ہے۔ اس سوال پر تو ہم بعد میں بحث کرتے ہیں لیکن پہلے ذرا اس سوال کا جواب ٹٹول لوں کہ ہٹلر کو یہودیوں سے کیا مسئلہ تھا۔ اسے یہودیوں کے ساتھ اتنی نفرت کیوں تھی، اس نے لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو کیوں مارا، یوں تو اس نے کمیونسٹوں کا بھی اسی نفرت سے قتل عام کیا، جس سے یہودیوں کو کیا تھا لیکن کمیونسٹوں کیلئے تو نفرت کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ جس انقلاب کے داعی ہوتے ہیں وہاں اس سرمایہ داری والے طبقے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن ہٹلر کے دماغ کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے کافی ورق گردانی کرکے اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن کسی ٹھکانے پر بات نہیں پہنچی کہ ہٹلر یہودیوں کے کیوں اتنا خلاف تھا اور یہ بات اس کی نازی آئیڈیالوجی کا حصہ کیوں تھی، قرون وسطیٰ میں یہودی کافی امتیازی سلوک کا شکار رہے لیکن اس کے مذہبی اسباب تھے اور اس کے وہ مذہبی اسباب جو تاریخی طور پر یہودیت اور مسیحیت کے مابین تھے، اس زمانے میں یہودیوں کو جبری عیسائی بنایا جاتا تھا، یورپ میں انیسویں صدی میں یہ تضاد زیادہ نسلی بن کے ابھرا، ہٹلر اور جرمنوں کا خیال تھا کہ یہودی نسل کے اعتبار سے ہم سے مختلف ہیں حتیٰ کہ جن یہودیوں نے عیسائیت بھی قبول کرلی ہے وہ بھی اپنی بلڈ لائن کے اعتبار سے مختلف اور گھٹیا ہیں، تاریخ میں یہ تو واضح ہے کہ ہٹلر میںAnti semiticیا یہودیوں سے نفرت کا جذبہ بچپن سے ہی موجود تھا جو اس کے ویانا میں قیام کے دوران بہت بڑھا، جہاں وہ اپنی مصوری کے شاہکار بیچا کرتا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی بنائی پینٹنگز کا سب سے بڑا خریدار بھی ایک یہودی ہی تھا، ہٹلر کے حسب نسب کا تانا بانا بھی یہودیوں سے جا ملتا تھا جس پر وہ بہت پشیمانی محسوس کرتا تھا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہٹلر کو ایک یہودی فاحشہ عورت سے تعلقات کے نتیجے میں خطرناک بیماری لگ گئی تھی لیکن اس دلیل کے کوئی تاریخ میں واضح ثبوت نہیں ہیں، البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آسٹریا کے دو سیاستدانوں سے ہٹلر بہت متاثر تھا، ان میں جارج شوفر کٹر جرمن تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ ہنگری اور آسٹریا کے جرمن بولنے والے علاقوں کو جرمن ایمپائر کا حصہ ہونا چاہئے، دوسرا ویانا کا میئر کارل لوگر تھا جن سے ہٹلر نے یہودیوں کو کچل کے کامیاب اصلاحات کا سبق سیکھا،اس کی تشریح بھی ہٹلر کے دماغ کے اندر ہی رہی لیکن وہ اس میئر کو جرمن تاریخ کا سب سے عظیم میئر قرار دیتا تھا، پہلی جنگ عظیم نے ہٹلر کے دماغ کو فیصلہ کن بنادیا، جب وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا جو اس وقت فرانس، انگلینڈ اور روس کے خلاف جنگ کررہی تھی۔ جب1918ء میں جرمنوں کو شکست ہوئی، اس وقت ہٹلر ہسپتال میں تھا، بلجیم میں زہریلی گیس سے اس کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوئی تھیں، اس وقت انہیں دشمنوں سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر کے اندر کے آستین کے سانپوں کی وجہ سے ہوئی ہے جن میںیہودی، سوشل ڈیمو کریٹ اور کمیونسٹ شامل ہیں، یہ وہ اسباب تھے جس کی وجہ سے ہٹلر جب سیاست میں داخل ہوا تو اینٹی یہودی اور اینٹی کمیونسٹ مکمل طور پر ریڈیکلائز Radicalise ہوچکا تھا اور اسے اپنے فن خطابت کا بھرپور احسا س ہوچکا تھا اور وہ سیاسی نظام کی ہر کمزوری، جرمنوں کی بربادی اور جرمنوں کی ہر میدان میں شکست کا ذمہ دار یہودیت کو سمجھتا تھا اور وہ کمیون ازم کو بھی یہودی کمیونزم ہی کہتا تھا جس کے نتیجے میں اس نے یہودیوں کو خوب نشانہ بنایا۔ ادھر 1917ء میں برطانیہ نے جوکہ اس وقت فلسطین کا سامراجی آقا متعین ہوچکا تھا، اس کے وزیر خارجہ نے یہودی کیلئے علیحدہ ریاست کا نظریہ دے دیا، جسے بیلفور ڈیکلریشن کہتے ہیں جسے بنیاد بناکر یہ صہیونی مائنڈ سیٹ خوب شیر ہوگیا اور جب1948ء میں یہودی ریاست کو امریکہ اور برطانیہ نے تسلیم کرلیا تو فورا اس صہیونی مائنڈ سیٹ نے وہاں کے مقامی فلسطینیوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنا شروع کردیا اور جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں سے آنے والوں کو اس نوزائیدہ اور زبردستی کی یہودی ریاست میں آباد کرنا شروع کردیا اور انہوں نے بہت جلد ہی فلسطین کی زمین پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی اور مقامی فلسطینیوں جوکہ عرب تھے،کو اپنے ہی ملک میں پردیسی بنادیا اور اس قبضہ گیر پالیسی نے اس خطے میں وہ فضا قائم کردی کہ یہاں امن قائم ہونے کی فقط راہیں تک رہا ہے اور اب یہی باہر سے آنے والوں نے مقامیوں کی نہ صرف نسل کشی شروع کردی ہے بلکہ انہیں مکمل طور پر اس کرۂ ارض سے ختم کرنے کا عمل شروع کررہا ہے، اب یہ ظلم اور امن کا ساتھ کب تک چلے گا، یہی ایک سوال ہے۔
یورپ سے سے مزید