کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ نوا زشریف کا جلسہ پی ٹی آئی جلسوں سے بڑا تھا، اس میں کوئی شک نہیں ہے، انھیں سزا غلط ہوئی تھی مگر انھیں غلط سزا کاٹنی ضرور چاہئے۔دو دن کے لئے جو بیل دی گئی وہ نہیں دینی چاہئے ، عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے ہمارا نظام خراب ہوکر رہ گیا ہے۔
اس کی وجہ سے جو سزائیں ہوئیں اس پر بھی سوال اٹھتے ہیں، مہنگائی کے خاتمہ کے حوالے سے نوا زشریف نے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ یہ ملک مقبول بیانیہ سے نہیں چلے گا، امید کرتے ہیں اس کا راستہ تحریک انصاف کے لئے بھی نکلے۔
خصوصی نشریات میں سینئر تجزیہ کار حامد میر،شاہزیب خانزادہ، شہزاد اقبال،صالح ظافر،سہیل وڑائچ ،عمر چیمہ اور مظہرعباس نے اظہار خیال کیا۔
سینئر اینکر پرسن شاہزیب خان زادہ نے کہا کہ کراؤڈ فل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نواز شریف بار بار یہ یقین دلا رہے تھے کہ وہ انتقام لینے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ انھوں نے اپنی داستان ضرور بتائی۔ ان کا فوکس یہی تھا کہ ملک کے حالات کو بہتر کرنے کے لئے آگے بڑھنا ہے۔ ڈالر نیچے لانا ، مہنگائی نیچے لانا ، ان دو سے چار باتوں پر عمل نہیں ہوسکتا ، نہ ہی ہو پائے گا مگر وہ عوام سے ضرور کررہے تھے۔ نواز شریف کی جانب سے تصادم کی تقاریر نہیں کی گئی۔ نواز شریف نے کوئی معاشی پلان نہیں دیا کہ وہ کس طریقے سے یہ سارے کام کریں گے جن کے وہ یہ وعدے کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ، ریاستی نظام نے مل کر نوا زشریف کو سسٹم سے باہر نکالا۔ مگر واپسی کے لئے یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ دو دن کے لئے آزاد گھومنے کی اجازت دی جائے اور عدالتیں ان کو بیل دے دے۔ اس کے بعد وہ عدالت کے آگے خود کو پیش کریں ۔ انھیں سزا غلط ہوئی تھی مگر انھیں غلط سزا کاٹنی ضرور چاہیے۔دو دن کے لئے جو بیل دی گئی وہ نہیں دینی چاہیے ، عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ مداخلت سے ہمارا نظام خراب ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے جو سزائیں ہوئیں اس پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔کیا نواز شریف اپنے ووٹر اور سپورٹرز کو یہ یقین دلا پائیں گے کہ وہ عمرا ن خان کے مقابلے میں بہتر متبادل ہیں۔ وہ واقعی ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ اس وقت نوا زشریف کی واپسی سیاست کے عروج پر نہیں ہوئی۔ وہ 2017 تک کی ہی بات کررہے تھے۔ وہ شاہد خا قان عباسی اور پی ڈی ایم کی حکومت سے بھی فاصلہ اختیار کررہے ہوتے ہیں۔کوئی بھی ملک جس کے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات نہیں ہے وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ نریندر مودی آئے تھے وزیراعظم کے گھر ہمیں اپنے وزیراعظم کو الزام تراشی شروع کردینی چاہیے یا ایک سفارتی کامیابی تھی۔ اگر آپ کو آگے بڑھنا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے تعلقات کو بہتر کرنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شبر زیدی صاحب ہمارے انٹرویو میں بتا چکے کہ اسمگلنگ روکنے کی کوشش کی تو ریاستی اداروں کی جانب سے مسئلہ تھا ، رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو جنرل باجوہ رکاوٹ تھے۔ ہمیں پچھلے پانچ سے چھ ماہ میں نظر آیا ہے کہ ریاستی اداروں نے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔جو ادارے ہیں وہ اتنا زیادہ انویسٹڈ ہوگئے ملک کی معیشت میں ان کا فیصلہ کئے بغیر سسٹم ٹھیک ہوگا نہیں۔ نوازشریف سب کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کررہے ہیں تو امید کرتے ہیں اس کا راستہ تحریک انصاف کے لئے بھی نکلے۔ ایک مقبول جماعت ہے۔ ان کے ووٹر سپورٹر کو بھی موقع ملے کہ وہ کیا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ مینار پاکستان میں تحریک انصاف نے جلسے کئے تھے آج نوا زشریف کا جلسہ پی ٹی آئی جلسوں سے بڑا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔2018 میں نواز شریف لاہور ایئر پورٹ پر اترے تو ان کو گرفتار کرلیا گیا تھا ، 2023 کو نواز شریف لاہور ایئر پورٹ پر اترے جنھوں نے 2018 میں گرفتار کیا تھا وہی ان کو سلیوٹ مار رہے تھے۔ ان کی تقریر میں جو اصل پیغام ہے انھوں نے غالب کا ایک شعر پڑھا ہے ۔ غالب کے شعر میں انھوں نے خبردار کردیا کہ اگر دوبارہ کوئی سازش ہوئی تو ہم اتنا روئیں گے کہ ان آنسو سے ایک طوفان بھی آسکتا ہے ۔نواز شریف نے اپنی تقریر میں کچھ سوال بھی اٹھائے ہیں ، جس میں پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہے کہ وہ کون ہے جو ہر چند سال بعد نواز شریف کو عوام سے جدا کردیتے ہیں؟ آپ کو پتا ہے کہ دھرنا کون کروا رہا تھا؟ ۔ نوا زشریف نے اپنے بیانیہ کے بارے میں بتایا کہ میرا بیانیہ اورنج لائن ہے، گرین لائن ہے، میٹرو بس سروس، موٹر وے ہے۔موجودہ صورت حال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کی بحالی کے لئے روڈ میپ دینا ہوگا۔نواز شریف نے آج اپنی پوری تقریر میں آئین پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
سینئر تجزیہ کار شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ نواز شر یف نے اپنی تقریر میں اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ غیر سیاسی مخالفین جو ماضی میں ان کے خلاف رہے ان کا نام بھی نہیں لیا۔نواز شریف نے ایک اہم بیان دیا کہ اپنے ہمسایوں سے لڑائی کرکے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ مسلم لیگ ن کی ایک پالیسی رہی ہے کہ انڈیا کے ساتھ ہمارے بہتر تعلقات ہونے چاہئیں۔نواز شریف نے سویلین بالادستی کا ذکر نہیں کیا جو ان کا بیانیہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو۔ نواز شریف نے کہا کہ چالیس سال کا نچوڑ یہی ہے کہ سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ مہنگائی کے خاتمہ کے حوالے سے نوا زشریف نے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ یہ ملک مقبول بیانیہ سے نہیں چلے گا۔ موجودہ صورت حال کے حوالے سے ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔ملک کا جو امیر طبقہ ہے جو زیادہ پیسہ کماتا ہے اس کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ شہباز شریف نے کہا تھا میں اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتا ہے تو مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔
تجزیہ کار صالح ظافر نے کہا کہ طیارے میں بیٹھے لوگوں کو جب بتایا گیا کہ طیارہ اڈیالہ جیل کے اوپر سے گزر رہا ہے تو لوگوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق سخت نعرہ بازی کی۔ کارکن نہایت جذباتی رہے اور نوازشریف کے حق میں مسلسل نعرے بازی ہوتی رہی۔دبئی کے ہوائی اڈے پر نوازشریف کو سربراہ مملکت جیسا پروٹوکول دیا گیا۔ نوازشریف اپنی تقریر میں اہم اعلانات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نوازشریف کی وطن واپسی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست جو ٹھپ ہوگئی تھی اور پاکستان کا سیاسی مستقبل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جارہا ہے کم سے کم پاکستان کی سیاست کا آج نئے سرے سے آغاز ہوگیا ہے ۔سینئر صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان کی سیاست کے لیے آج کا دن مبارک ہے نوازشریف کی واپسی ہو رہی ہے اگر نوازشریف کا موازنہ باقی لوگوں سے کیا جائے تو انہوں نے جب سے سیاست شروع کی ہے اُن کے ساتھ والے کئی لوگ اب دنیا میں نہیں ہیں۔کئی لوگ سیاست میں نہیں ہیں جبکہ نوازشریف اس دنیا میں بھی ہیں اور سیاست میں بھی ہیں اور مختلف ٹائم پر لوگوں نے ان کی سیاسی موت لکھ دی تھی یہی ایک تصور ہوتا تھا کہ نوازشریف اب دوبارہ نہیں آسکتے۔نوازشریف کی لگتا ہے ایک سے زیادہ سیاسی زندگیاں ہیں جس میں انہوں نے عروج و زوال دونوں دیکھے ہیں۔
سینئر تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا کہ 16 ما ہ جو شہباز شریف کی حکومت رہی اس سے ن لیگ کی حکومت کا گراف بہت زیادہ نیچے گر گیا۔ نواز شریف میڈیکل ایشو کی بنیاد پر ملک سے باہر گئے تھے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نواز شریف چھ ماہ سے سال کے اندر واپس آجائیں گے، مگر چار سال کے بعد واپس آنے پر یہ سوال اٹھتے ہیں کہ کیا واقعی میڈیکل بنیاد پر باہر گئے تھے یا نہیں ۔