آج جبکہ غزہ تنازع پر طاقت کے بہیمانہ استعمال نے عالمی برادری کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے اور ممکنہ تیسری جنگ عظیم کے خدشات زبان زدعام ہوگئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ انسانی سماج نے روزِاول سے مختلف تنازعات کی بنا پرجنگ و جدل کاسامنا کیا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے استعمال سے نہ صرف جنگ زدہ معاشروں میں غربت، افلاس اور بھوک و بیماریوں کا راج ہوجاتاہے بلکہ جارح قوتیں بھی عسکری اخراجات اور جوابانہ حملوں کی زد میں آکر متواتر خطرات سے دوچار رہتی ہیں، تاہم ہر دور میں ایسے خداترس اور سمجھدار انسان بھی جنم لیتے رہے ہیں جو جنگ بندی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خدا کی دھرتی کو امن کاگہوارہ بنانے کیلئے آوازِ حق بلند کرتے ہیں۔ آج سے اڑھائی ہزار سال قبل سرزمین پاکستان کے تاریخی علاقے ٹیکسلا میں بسنے والے قدیمی فلسفی کوٹلیہ چانکیہ کی ذہانت اور حکمت و دانائی کا ایک زمانہ معترف ہے، اکیسویں صدی کے دورِجدید میں بھی اسکی تحریرکردہ کتابیں ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی مقبولیت میں نمبر ون ہیں،چانکیہ جی کے مشوروں پر عمل پیرا ایک کنیز زادہ چندر گپت موریا قدیم ہندوستان کی سب سے عظیم ریاست کا بادشاہ بننے میں کامیاب ہوگیاتھا، اڑھائی ہزار سال قبل جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں غرق تھی، چانکیہ نے خدا کی دھرتی پر مختلف گروہوں کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں جنگ مسلط کرنے کی حوصلہ شکنی کی،اس زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ اگر کسی مخالف ریاست کا حکمران یا باغی بہت زیادہ اضطراب پیدا کر رہا ہو تو پھرتنازع کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے طاقت کا استعمال ہی واحد آپشن ہے۔ چانکیہ جی نے یہ اہم سوال اٹھایاکہ اگرطاقت کے بل بوتے پر مخالفین پر قابو پابھی لیا جائے تو اس امرکی کیا گارنٹی ہوگی کہ مستقبل میں مخالفین کے جانشین بھی ہمارے طابع رہیں گے؟ جب ایک طاقتور فریق جنگ جیت لیتاہے تووہ یا تو مفتوح علاقے کااپنی ریاست سے الحاق کرتاہے یا پھر وہاں اپنی مرضی کا حکمران لگا تا ہے،تاہم اجنبی سرزمین پر کنٹرول مزید گھمبیر تنازعات اور مسائل کاباعث بنتا ہے، یہ کبھی نہ حل ہونے والے اختلافات اور نفرتوں کو جنم دیتا ہے اور پھر باہمی کشمکش کے نتیجے میں بغاوتیں زور پکڑتی ہیں، اگروقتی طور پرجنگ کا پلڑافاتح کے حق میں بھاری ہو بھی جائے تو بازی پلٹتے دیرنہیں لگتی۔چانکیہ نے دوطرفہ تنازعات کے دیرپاحل کیلئے ایک ایسی زبردست حکمت عملی پیش کی جس پر عمل کرکے چندرگپت موریا نے اپنی عظیم الشان سلطنت کو وسعت دیتے ہوئے خطے میں امن اور علاقائی استحکام یقینی بنایا ۔چانکیہ کے مطابق کسی بھی تنازع کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پہلا اور سب سے اہم قدم 'سما' ہے کہ آپ اپنی انا کو رد کرتے ہوئے اپنے مخالف سے بات چیت کیلئے ہاتھ بڑھائیں، بیشتر تنازعات کی بڑی وجہ غلط فہمیوں پر مبنی ہوتی ہے، جب آپ مذاکرات کی میز پر دلائل سے گفت و شنید کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کوپہلے مرحلے میں ہی اخلاقی فتح حاصل ہوجاتی ہے۔چانکیہ کا کہنا ہے کہ اگریہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوتی تو آپ کو' دانا' کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، سنسکرت زبان میں دان کا مطلب ہے کہ تحائف، نقد رقم یا فائدہ دینا تاکہ متاثرہ فریق کو آمادہ کیا جا سکے یا نقصان کا ازالہ کیا جائے،آج بھی بہت سے تنازعات میں پیسے کالین دین بہت سے معاملات کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اگر یہ حربہ کام نہیں کرتا ہے، تو 'بھیدا'کااگلا مرحلہ آزمانے کی ضرورت ہے جسکا مقصد مخالف کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کرنا اور تنہائی کا شکار کرنا ہے، آج دور جدید میں بھی عالمی سطح پر بہت سے ممالک اپنے مخالفین کو سفارتی تنہائی کا شکار کرکے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کررہے ہیں، اسی طرح ایک معاشرے میں بدنام اور جرائم پیشہ شخص کا سماجی بائیکاٹ اسی حربے کی ایک مثال ہے۔ چانکیہ نے طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کو'ڈنڈا'کانام دیتے ہوئے آخری حربہ قرار دیا کہ جب تنازعات کے پرامن حل کیلئے تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو مخالف فریق کی جانب سے ہٹ دھرمی کے مظاہرے اور مذاکرات کی ناکامی کے بعد سوائے عسکری کارروائی کے اور کوئی آپشن نہیں رہتا۔ تاہم جنگ کا حتمی فیصلہ کرنے سے قبل چانکیہ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے تا کہ مخالفین کے موقف پر غور و فکر کیاجائے،جنگی نقطہ نظر سے فوائد و نقصانات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور کوئی درمیان کا قابل قبول راستہ نکالا جاسکے، چانکیہ کا ماننا ہے کہ ضرورت سے زیادہ صبر بزدلی یا کمزوری ظاہر کر تا ہے اوربروقت صحیح فیصلے نہ کرنے کی بنا پر مفادات سے سمجھوتہ کر نا پڑسکتا ہے،اس امر کو یقینی بنانے کیلئے کہ آپ کے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے، حکمران کو اپنی عسکری قوت کی بہت احتیاط سے جھلک دکھانے کی ضرورت ہے۔چانکیہ کے پیش کردہ یہ وہ جنگی اصول ہیں جنہیںزمانہ قدیم میں ہندوستان کے ہرامن پسندسمجھدار حکمران نے اپنے دورِحکومت میںلاگو کیا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ آج کی جدید دنیا میں بہت سے کامیاب ممالک بھی سفارتکاری کے میدان میں انہی پر عمل پیرا ہیں۔چانکیہ جی اچھی طرح جانتے تھے کہ انسانی سماج میں اختلافات کا رونما ہونا ایک قدرتی عمل ہے، تاہم جب اختلافات کافی مدت تک حل نہیں ہوتے تو پھر وہ دھرتی کو لہولہان کرنے کا باعث بنتے ہیں۔چانکیہ نے حتی الامکان جنگ سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، صرف آخری آپشن کے طور پرعسکری کارروائی (ڈنڈا) کی تجویزدی ہے تاکہ فسادی عناصر کا خاتمہ کیا جاسکے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کرتے ہوئے تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیرینہ فلسطین تنازع کا پرامن حل یقینی بنایاجاسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)