• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف اور عمران خان کے ہاتھ سے وقت پھسلتا جا رہا ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنی سزاؤں کو ختم کرانے کے معاملے میں وقت میاں نواز شریف اور عمران خان کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے۔ اب جبکہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات 8؍ فروری 2024ء کو ہوں گے، دونوں سرکردہ رہنماؤں کے پاس ایک مہینہ رہ گیا ہے کہ وہ عدالتوں سے اپنا نام کلیئر کرائیں تاکہ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہو سکیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئندہ ماہ کے اوائل میں الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرنا ہے تاکہ الیکشن 8؍ فروری کو ہو سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول کا اعلان دسمبر 2023ء کے پہلے ہفتے میں کرنا ہوگا۔ نواز شریف اور عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دونوں الیکشن لڑنے یا کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے اہل نہیں کیونکہ دونوں کو مختلف کیسوں میں عدالتوں نے مجرم قرار دے رکھا ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں ان کی سزا معطل کر رکھی ہے لیکن سزا اپنی جگہ برقرار ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے کا اہل بننے کیلئے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں بریت درکار ہے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ جلد عمران خان کی سزا کیخلاف اپیل سماعت کیلئے منظور کرے۔ فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اسلام آباد ہائی کورٹ ایسی اپیلیں اپنی باری آنے پر سماعت کیلئے مقرر کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپیلوں کی سماعت میں بھی وقت لگتا ہے۔ نواز شریف کے معاملے میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایوین فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں بریت درکار ہے اور ساتھ ہی پنامہ کیس میں تاحیات نا اہلی کا معاملہ بھی نمٹانا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایوین فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی اپیلیں قابل سماعت قرار دی ہیں لیکن یہ اپیلیں سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئیں۔ توقع ہے کہ جلد ان اپیلوں کو سماعت کیلئے مقرر کرکے ان کا فیصلہ کیا جائے گا لیکن نواز شریف کی پنامہ کیس میں نا اہلی ان کے سیاسی مستقبل کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے حوالے سے تازہ ترین فیصلے میں نواز شریف کی سزا کے خاتمے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایکٹ کو برقرار رکھا لیکن سیکشن پانچ کی ذیلی شق دو کی توثیق نہ کی جس میں پچھلی تاریخوں میں اپیل کا حق دینے کی بات کی گئی تھی۔ اس ذیلی شق کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں اب نواز شریف سیاست میں حصہ لینے کی خاطر تاحیات نا اہلی کیخلاف اپیل دائر نہیں کر سکتے۔ اب موجودہ صورتحال میں نون لیگ کی ساری امیدیں ایک اور متنازع قانون ’’الیکشن ایکٹ 2017‘‘ پر ٹکی ہوئی ہیں جس میں 2023ء میں پی ڈی ایم کی حکومت میں ترمیم کی گئی، اور اب پارٹی کا اصرار ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نا اہلی غیر متعلقہ ہو چکی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (اہلیت اور نااہلی) میں ایک ترمیم متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔ اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہوگی۔آئین میں سزا کی مدت متعین نہ ہونے پر رکن اسمبلی کی نااہلی پانچ سال تصور کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پنامہ کیس میں صادق اور امین نہ ہونے پر میاں نواز شریف کو آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔نون لیگ کی رائے ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم نواز شریف کو فائدہ دے گی اور انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنی نااہلی کی پانچ سالہ مدت پوری کر چکے ہیں۔ کچھ آزاد قانونی ماہرین سمیت دیگر کی رائے ہے کہ آئینی ترمیم یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بغیر قانون میں ترمیم کی بنیاد پر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کو پانچ سال تک کم نہیں کیا جا سکتا۔مذکورہ ترمیم سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے بھی متصادم ہے جس میں آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت تاحیات نااہلی کا حکم دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کیلئے اب واحد امید احسن بھون کی سربراہی میں پاکستان بار کونسل کی پٹیشن ہے، جس میں ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا گیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید