• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ الفاظ اپنا اثر رکھتے ہیں ، کبھی نرم و ملائم و نازک احساسات کو جگانے، کبھی خوشی و مسرت کی پرواز کرنے میں مدد گار،تو کبھی حوصلے و جوش سے پُر… لیکن کبھی یہی حروف کا مجموعہ سخت و ترش بن کر شخصیت کو معدوم کر دیتا ہے۔ انہی الفاظ کو اگر جملوں یا فقروں کی ترتیب دے دی جائے تو زیادہ اثر پذیری دکھاتے ہیں ۔ لیکن جب یہ فقرے ، سوالات کی صورت ڈھل جائیں اور وہ بھی کاٹ دار شکل میں ، تو پھر ان کے اثرات بہت برے ہوتے ہیں۔ 

آج ایک طرف تو عدیم الفرصتی کا ڈھنڈورا ہےتو دوسری طرف سماجی مسائل کا الجھاؤ ، ہر کوئی اپنی پریشان زندگیوں سے نمٹنے میں کوشاں ، لیکن اسی تکون کے تیسرے کونے میں ہم دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے ، اسے کھنگالنے ، دخل در معقولات کرنے ، بے جا مداخلت کرنے، تجسس و تحقیق کے موجد ، تشویش ، تفتیش کے شوقین بنے ہر خاندانی مسائل سے آگاہی جاننے کے رسیا بنے ہوئے ہیں ۔سوال ، سوال ، سوال ، ہر ایک سے اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے ان گنت سوالات ، ہمارے پوچھے جانے والے سوالات دوسروں کو مشکل میں ڈالتے ہیں۔ 

درجنوں موضوعات چھوڑ کر ہم نے دوسروں سے ان کی نجی زندگی کے متعلق کچھ ضروری اور اہم سوال ضرور کرنے ہیں ۔۔۔۔ کیوں ؟اس کا ہمارے پاس کوئی خاص جواب نہیں ، شاید معلومات عامہ میں اضافے کے لیے ، یا دوسروں تک پہنچانے کے لیے ، یا کسی جذبہ کی تسکین کے لیے ، یا بس یونہی ، اب کوئی بات کرنے کا موضوع نہیں تو یہی پرچہ سوالات اس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے ( حالانکہ جواب دینے والے کو تیاری کا موقع بھی دستیاب نہ ہو سکا۔)۔ 

جس میں کچھ سوال لازمی بھی ہیں ، کچھ اہم، کسی کے دو حصے ہیں تو کسی کے تین، وقت بھی محدود ، ممتحن کی کڑی نگرانی کے ساتھ نگاہیں بھی کھوجنے کے لیے گردش میں ۔افف!!جواب دینے والا جس کو سوچنے کا بھی نہ وقت ملا ، نہ ہی موقع۔ دوسری طرف سوال ہی سوال ، اور جب تشفی بھرا جواب میسر نہیں ہوا، تو نمبر دینے پر زبردست کٹوتی ، اس سوال کا جواب مکمل نہیں ، تو اس کا جواب ، آدھا ، ادھورا ، اس سوال کے جواب میں بہت سوچنے کا وقت لیا، یہاں اٹکیں، تو یہاں جھجکیں ، یہاں چھپایا تو یہاں بلا ضرورت وضاحت میں صفائی دی گئی۔ 

اوہ خدایا!آپ نے تو مارکنگ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کر لی، دوسرے کو موقع دیے بغیر ، اور اس دوران اس کو کتنا برا لگا ، کتنی مرتبہ دل پر آرے چلے، نہ تو پوچھنے والے کو اندازہ نہ مداوا ، اپنی پسند کا جواب نہیں مل سکا تو خفگی اور غصے کا اظہار بھی کرلیا۔کس کی زندگی کیسی ہے؟، کیا یہاں مسائل نہیں ؟, مجبوریاں ،پریشانیاں نہیں ؟ مشکلات نہیں، ہر کوئی خوشیوں کے ہنڈولے میں بیٹھا جھول رہا ہے یا دکھوں کو اپنی استعداد سے بڑھ کر جھیل رہا ہے؟  

اس کو جاننے کے لیے نہ وقت ، نہ فکر ، کیوں کہ نہ یہ آپ کی زندگی ، نہ آپ کے مسائل ، وہ جانیں ان کا کام۔ مجھ جواب نہ مل سکے ، میں نے اپنے اندازے لگالیے، اب میرا کام ختم اور دوسرے کا تمام ۔خود ہی عدالت لگاتے ہیں ، خود ہی ملزم ٹھہراتے ہیں ، ناکردہ جرم کا سزاوار بنا کر مجرم بھی بنا دیتے ہیں۔ وکیل بھی خود، منصف بھی خود اور پھر اپنی پسند کی فرد جرم بھی عائد کرنے میں کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ 

اپنے سوالات کے جوابات کے مطالب بھی اپنی مرضی کے نکال کر ان کو ایک نئی صورت میں ڈھال کر آگے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ہمارے عمومی رویے ہیں، جن کی جتنی بھی تکذیب کی جائے ، وہ کم ہے، ہم ادھیڑ نے میں ماہر، مگر رفو گری میں کمزور یا نا لائق۔ افسوس ہم اپنی عادت بدلنا نہیں چاہتے ، لیکن دوسروں کی زندگیوں کے متعلق سوالات کر کے، اسے جز بز کرنا خوب جانتے ہیں۔ کیا کسی نسخہ میں درج ہے کہ آپ کسی سے ملاقات کرتے ہی، اسے اپنے سوالات کی زد میں لے لیں، اس کی نجی زندگی مثلاً شادی ، بچے، نوکری ، کاروبار ، وغیرہ کے معاملات کے متعلق چبھتے ، نوکیلے سوالات کریں اور اگر وہ کسی مجبوری سے ٹالنے کی کوشش کرے تو مزید دھار تیز کرلیں۔ 

یاد رکھیں، ہر کسی کے حالات یکساں نہیں ہوتے، باطنی معاملات کبھی ظاہری حالات سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں ۔ خوش نصیبی ہر کسی کے دروازے پر دستک نہیں دیتی۔ گھر میں بیٹیاں ہوں، تو گھر والوں سے زیادہ ارد گرد کے لوگوں کو اس کی فکر ، خیر سے رشتہ طے ہو گیا تو اب شادی کی پریشانی، شادی ہو گئی تو اولاد کے متعلق کھوج اور پھر پہ در پہ وہی کٹیلے سوال، جن سے بچنے کے لیے اب لوگوں نے ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کرنا شروع کر دیا ۔ 

لوگوں کے دلوں میں رہنا سیکھیں ، ان سے ہمدردی و پیار و خیر خواہی کیجئے ، ان سے سوالات نہیں بلکہ ان کے مسائل کے حل تلاش کریں ، اپنی ذات کو ان کے لیے مددگار بنائیں، تاکہ ہر مشکل میں وہ آپ کو پکاریں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب دل میں تجسّس کے بجائے خلوص کے جھرنے ہوں، جس میں ہر کسی کے لیے مدد کا جذبہ موجزن ہو۔ اپنی شخصیت سنوارنا ، ہمارے ہاتھ میں ہے۔

اپنی خامیوں پر قابو پانا ممکن ہے ، لیکن اس کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔ ایسے سوالات کو اپنی زبان کی نوک پر ہی ٹھہرا لیں۔ لوگ گرم شعاعوں سے بچنے کے لیے چھاؤں چاہتے ہیں، جو آسانی سے میسر نہیں ہوتی، آپ وہ چھپر چھاؤں بن جائیں ، جس کو ڈھونڈا جاتا ہے، جو نظر آجائے تو لوگ اس طرف دوڑتے ہیں، اور اس کے سائے میں کچھ پل بھی ٹھہریں تو چین و امن محسوس ہوتا ہے، ٹھنڈا، پرسکون ، فرحت نما احساس، لہٰذا کسی کو درد دینے سے قبل ہی ان کا مرہم بن جائیں۔ یقین کریں آپ بلند مقام پا لیں گی۔