• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائی بلڈ پریشر ،ناقص غذا ،شوگر ، موٹاپا، ورزش نہ کرنا دل کے امراض کےاہم اسباب ہیں۔ ان کو نظر انداز کرنے کے باعث دل کے امراض میں ہر سال تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ،اس سے متعلق آگاہی ہونے کے باوجود لوگ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور معالج سے رجوع اُس وقت کرتے ہیں جب مرض کافی حد تک پے چیدہ ہوچکا ہوتا ہے ۔اگر دل کے امراض کی بروقت تشخیص کرلی جائے تو علاج کی کام یابی کی شر ح بڑ ھ جاتی ہےاور بعد میں ہونے والے مسائل پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ان اسباب پر قابوپائے بغیر دل کےامراض کا تدارک ممکن نہیں۔ یہ کہنا ہے ماہر امراض ِدل (کارڈیو لوجسٹ )ڈاکٹر احمد سلمان غوری کا ۔ ڈاکٹر احمد سلمان غوری نے 1987ء میں سندھ میڈیکل کالج(ایس ایم سی) سے ایم بی بی ایس کی ڈگر ی حاصل کی ،پھر جناح اسپتال میں ہاؤس جاب کی، بعدازاں این آئی سی وی ڈی (NICVD) میں 30 سال اپنی خدمات انجام دیں۔

علاوہ ازیں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں بہ حیثیت انسٹرکٹر بھی کام کیا۔این آئی سی وی ڈی سے گزشتہ سال اکتوبر میں بہ طور ایسوسی ایٹ فزیشن ریٹائرڈ ہو ئے۔ فی الوقت پرائیویٹ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے کئی گئی گفتگو کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

س: دل کے امراض کی شرح میں ہر سال کسی حد تک اضافہ ہوتا ہے؟ آپ کے خیال میں ان کے بڑھنے کی اہم وجوہات کیا ہیں ؟

ج: جی بالکل! دنیا بھر میں ہر سال تقریباً چھ کڑوڑ افراد دل اور اس سے متعلق بیماریوں کا شکار ہورہی ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان امراض میں اضافہ کی متعدد وجوہات ہیں مثلاً ہائی بلڈ پریشر ،ناقص یا غیر صحت بخش غذا کا استعمال، خون میں کولیسٹرول کی زیادتی، تمباکو کا مختلف اشکال میں استعمال، شوگر کا مرض، موٹاپا، ورزش کا نہ کرنا یا زیادہ تر بیٹھے رہنا۔

س: اینجیوگرافی کیا ہوتی ہے ؟

ج: اینجیوگرافی صرف ایک ٹیسٹ ہے، جس کی مدد سے دل کی شریانوں کی تنگی کے بارے میں معلومات لی جاتی ہیں یہ کوئی علاج نہیں۔

س: اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو بائی پاس آپریشن بہت کم ہوتے تھے ،مگر اب ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے اپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے ؟

ج: آج کل چونکہ اینجیوپلاسٹی ( دل کے گرد بند شریان کو کھولنے کا طریقہ) کی بہتر تیکنیکس دستیاب ہیں۔ لہٰذا بائی پاس کے مقابلے میں اس طریقہِ علاج سے شریانیں کھولنے کا عمل زیادہ ہورہا ہے۔ 

آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور دل کے امراض میں بھی روز افزوں اضافے کا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ علاج معالجہ کی بہتر سہولیات کی مدد سے دل کے دورہ سے اموات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔چناںچہ اینجیوپلاسٹی اور بائی پاس کی شرح میں بھی اسی تناسب سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

س: عمر کے کس حصہ میں پہنچے کے بعد دل کا چیک اپ لازمی کروانا چاہئے ؟

ج: امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (AHA)کے مطابق دل کی صحت سے متعلق چیک اپ 20 سال کی عمر سے شروع کر دینا چاہیے اور کم از کم تین سال کے وقفے کے بعد چیک اپ کروانا چاہیے۔ 

برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس(NHS) چالیس سال سے اوپر کے افراد کو ہر پانچ سال کے وقفہ سے مفت چیک اپ کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ چناں چہ برطانیہ میں زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ چالیس سال کی عمر سے چیک اپ شروع کر نا چاہیے۔

س: دل کے امراض سے بچنے کے لئے طرز زندگی میں کیا تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ؟

ج: اپنی جسمانی صحت اور دل کی صحت کو بہتر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ٭روز انہ تیس سے ساٹھ منٹ ورزش کریں ٭ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں ٭ وزن کم رکھیں٭ نمک اور میٹھے کا استعمال کم کریں٭چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء کا استعمال کم رکھیں٭مضر ِصحت مشروبات کا استعما ل نہ کریں ٭صحت بخش غذا کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ مثلاً پھل ،سبزی، دالیں اور خشک میوہ جات۔

س: کچھ بچوں کے پیدائشی طور پر دل میں سوراخ ہوتا ہے ،اس کا خود سے بھر جانے کے چانسز کتنے فیصد ہوتے ہیں اور اس کی کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں ؟

ج: پیدائشی دل میں سوراخ مختلف اقسام کے ہوتے، البتہ دو جو عام طور پر پائے جاتے ہیں انہیںAtrial septal defect ((ASD)اورventricular septal defect(VSD )کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ -ASD کے مریضوں میں عموماً کوئی علامات نہیں پائی جاتیں اور یہ 60سے 90فی صدتک پیدائش کے 18ماہ میں قدرتی طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ 

جب کہ VSD کے مریضوں میں قدرتی سوراخ بند ہونے کے عمل میں عمر کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ18 ماہ کی عمر میں 25فی صد ، چار سال کی عمر میں 50 فی صداور دس سال کی عمر میں 75 فی صد۔ VSD کے بچوں میں تھکاوٹ ، سانس کا تیز تیز چلنا ، وزن کا نہ بڑھنا ، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا ، دودھ پیتے ہوئے دشواری اور کمزوری ، اور بار بار سینے کا انفیکشن ہونا شامل ہیں۔

س: دل کے وال بند ہونے کی اہم وجہ کیا ہوتی ہے ؟

ج : دل کے اندر چار قسم کے وال ہوتے ہیں دو دل کے اوپر اور نیچے والے خانوں کے درمیان خون کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کے لئے اور دو دل کے نیچے والے خانوں اور دل سے نکلنے والی بڑی شریانوں کے درمیان۔ ان وال کے بند یا تنگ ہونے کی سب سے بڑی وجہ بچپن میں گلے خراب ہونا یعنی جو جرثومہ ٹانسلز کی بیماری کا باعث ہوتاہے ،وہ ہی جرثومہ دل کے والز پر حملہ کرکے انہیں متاثر کرتا ہے اور ان کی تنگی کا باعث بنتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ کیسز میں یہ پیدائشی بھی تنگ ہوتے ہیں۔ وال کی بیماری شریانوں کی بیماری سے مختلف ہے جن کی بندش ایجائنا(سینے میں درد) اور ہارٹ اٹیک کا سبب ہوتی ہے۔

س: دنیا بھر میں اور پاکستان میں دل کے کون سے امراض عام ہیں؟

ج: سب سے نمایاں اور ذکر کی جانے والی دل کی بیماری دل کا دورہ جو کہ دل کے اوپر لگی ہوئی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دل کی دھڑکنوں کا بے ربط اور بہت تیز یا بہت سست ہونا ، ہارٹ فیلیئور، ہارٹ وال کی خرابی، دل کے اوپر کی جھلی کے امراض، دل کے پٹھوں کی بیماری، کارڈیومایوپیتھی (CMP) پیدائشی بیماریاں مثلاً دل میں سوراخ وغیرہ۔

س: ہمارے پاس دل کے امراض کے علاج کی تمام جدید سہو لتیں موجود ہیں؟

ج: دل کی بیماریاں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا علاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ البتہ ہمارے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں تقریباً تمام جدید سہولیات اور آلات موجود ہیں۔

س: کسی شخص کو ایک مرتبہ ہارٹ اٹیک ہونے کے بعد دوبارہ ہونے کے کتنے فی صد چانسزہوتے ہیں ؟

ج: امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن ( AHA) کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک شخص کو پانچ سالوں کے دوران دوسرے اٹیک کا خطرہ ہوتا ہے۔ 25فی صدکو دوسرا اٹیک دو ہفتوں سے تین ماہ کے دوران ہوسکتا ہے۔

س: کیا دل کی بیماری سے جسم کےدوسرے اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں ؟

ج: جی بالکل! دل کی بیماریاں جگر ، گردے پھیپھڑے اور دماغ وغیرہ کو متاثر کرسکتی ہیں۔

س: دل کے کسی بھی امراض کی ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں؟

ج: دل کے مختلف اور متعدد امراض ہیں۔ اسی لئے ان کی علامتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں ، مگر چند ابتدائی علامات جو کہ قابل توجہ ہیں ان کا تذکرہ یہاں کر دیتے ہیں۔ 

مثلاً بے وجہ کی کمزوری اور تھکاوٹ ، نیند میں خلل، سانس کا پھولنا یا اس میں دقّت محسوس ہونا ، چکر ، سینے میں درد یا کھنچاؤ اور پیروں میں سوجن کا آناشامل ہے۔ اگر آپ کو ان میں سے کوئی تکلیف محسوس ہوتو فوری طور پر ڈاکٹرسےرجوع کریں ۔

س: دل کے امراض کی شرح مردوں یا عورتوں میں سے کس میں زیادہ ہے؟

ج: جنس اور عمر کے اعتبار سے دل کے امراض کی شرح میں فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً شوگر کے مرض میں مبتلا خواتین میں مردوں کے مقابلے میں 50فی صدزیادہ دل کی بیماری ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی خواتین میں 50فی صد زیادہ دل کی بیماری کا باعث ہے۔

س: جن لوگوں کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہوتی ہے، ان کو دل کی بیماری لاحق ہونے کے کتنے فی صد خطرات ہوتے ہیں ؟

ج: ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو 47فی صد دل کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

س: پاکستان میں ہارٹ اٹیک کی شرح کیا ہے ؟

ج: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ہارٹ اٹیک سے 2020ءمیں دولاکھ چالیس ہزار سات سو بیس اموات ہوئیں۔اس کی شرح تقریباً16.49 فی صد بنتی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان 30 ویں نمبر پر ہے۔

س: کون کون سی غذائیں دل کی صحت کو متاثر کرتی ہیں ؟

ج: چینی اور میٹھی غذائیں ، نمک کی زیادتی ، چکنی اور تلی ہوئی اشیاء ، بیکری کی اشیاء اور فاسٹ فوڈز ۔

س: کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (سی پی آر) کیا ہے اورا س کے ذریعہ مریض کے بچنے کی امید کتنے فیصد ہوتی ہے ؟

ج: کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن انسان کی جان بچانے کے لیے اپنایا جانے والی ہنگامی طبی امداد ہوتی ہے۔یہ دراصل کسی وجہ سے اپنا کام انجام نہ دینے والے دل اور پھیپھڑوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش ہوتی ہے، تاہم اس کا انحصار بیماری کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ہسپتال سے باہر دئیے گئےکارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن( سی پی آر) سے 10 فی صد تک جانیں بچائی جا سکتی ہیں جب کہ یہی سی پی آر اگر قریب کھڑے لوگ یا مریض کے لواحقین فوری شروع کردیں تو یہ شرح 40 فی صد تک بڑھ سکتی ہے۔

س : کیا پاکستان میں سی پی آر کی ٹریننگ دینے سے فائدہ ہورہا ہے؟

ج: بی ایم سی ایمرجنسی میڈیسن جرنل میں شائع ہونے والی حالیہ اسٹڈی میں ہسپتال سے باہر ہونے والے 90 فی صد کارڈئیک اریسٹ کے مریضوں میں سے صرف 2.3فی صد کو قریب کھڑے لوگوں نے سی پی آر کیا۔ 

دو مختلف اسٹڈیز کے مطابق ہسپتال سے باہر دیئے گئے سی پی آر کے ذریعہ سے اسلام آباد میں 2فی صد اور کراچی میں 11 فی صد افراد کی جان بچائی جا چکی ہے۔

صحت سے مزید