• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا 2025-26ء کا کل بجٹ17570ارب ہے، جس میں صحت کے لیے 14.3بلین مختص کیے گئے۔ صحت کی سہولیات یا ہیلتھ کیئر رینک میں دنیا کے 190ممالک میں پاکستان 122 ویں نمبر پر ہے۔ 

صحت کے مراکز میں صورت حال غیر اطمینان بخش،ڈاکٹرز دوائیں اور دیگر سہولیات ناپید، اسپتالوں کے کئی شعبے غیر فعال، ایمبولینس اور دیگر سہولیات کا فقدان رہا، کروڑوں کی دوائیں چوری ہوکر میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہوتی رہیں۔ 

مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے دوائیوں کی قیمتیں خصوصاً جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ جعلی ادویات ،کھانے، پینے کی اشیا میں ملاوٹ، کیمیکلز والا دودھ، ہارمون پر پلی مرغیاں، پریشر والا گوشت، ناقص مسالحہ جات اور آئل، گندے پانی میں اگائی ہوئی سبزیاں، مصنوعی رنگ اور انجکشن لگے فروٹ، مضر صحت منرل واٹر،کھانے پینے سے کیسے صحت مند ہوسکتے ہیں۔ 

فوڈ اتھارٹی کے سخت اقدامات نا ہونے کی وجہ سے ہوٹلوں میں غیر معیاری پکوان آئل اور ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت خوب ہوئی۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی غذائی تحفظ نیشنل فوڈ سیکورٹی اجلاس میں کتوں، گدھوں اور مینڈکوں کے گوشت کی فروخت کا انکشاف اور ملک میں بیچا جانے والا78فیصد دودھ کیمیکل ہے کے اعلان کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ 

بچوں کی صحت کے حوالے سے بات کریں تو یونیسیف کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں قریباً 700 بچے روزانہ ایک ماہ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ قبل از وقت پیدائش ہے، 5 سال سے کم عمر بچوں کے اعدادو شمار کے مطابق ایک ہزار میں سے65 بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پائے۔ 

بچوں کی اموات کی زیادہ تر وجوہات غذائی قلت، آلودہ پانی، صفائی، ستھرائی کی کمی، ڈائریا اور نمونیہ ہے۔ WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں58فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ دیہی سندھ میں 5 سال سے کم عمر ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کاجب کہ 42فیصد بچے پست قامتی کا شکار ہیں، یہ شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ اس وقت پاکستان میں قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں میں اموات کا تناسب39/1000ہے جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

بارشوں کی وجہ سے کئی شہروں میں گیسٹرو کی وباء پھیلی، قریباً 39500 بچوں کی اموات ڈائریا اور نمونیہ سے ہوئیں، جس کی وجہ فضائی آلودگی، کمزور مدافعتی نظام، غذائی قلت ہے۔ نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسینEPIپروگرام میں شامل ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہEPIپروگرام کے تحت حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے جو امراض بظاہر ختم ہوگئے تھے، ان میں بعض بیماریوں نےدوبارہ سر اٹھایا،جن میں خسرہ اور روبیلا شامل ہیں۔ 

سندھ میں دو ماہ میں خسرہ کے 1185کیس رپورٹ ،17ہلاکتیں ہوئیں۔ پولیو کو شکست دینے میں بھی ناکام رہے اس سال پولیو کے30کیس رپورٹ ہوئے، سال کا پہلا کیس5جنوری کو جیکب آباد میں رپورٹ ہوا۔ گلگت بلتستان میں2017ء کے بعد پہلا کیس سامنے آیا۔ زیادہ تر کیسKPK اور سندھ میں رپورٹ ہوئےْ۔ اس سال بھی پولیو ورکرز پر حملے ہوتے رہے۔

خواتین کی صحت پر بات کریں توان کی اکثریت غذا کی کمی کے ساتھ خون کی کمی کا بھی شکارہیں۔ جنوبی ایشیا میں خون کی کمی کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ خواتین میں خون کی کمی کے 928154نئے کیس سامنے آئے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 

یہاں مٹرنل مورٹیلٹی ریشو MMR 155 ہے، ایک لاکھ میں298عورتیں زچگی کے دوران فوت ہوجاتی ہیں۔ وجوہات خون کی کمی، خون کا زیادہ بہہ جانا، بلڈ پریشر اور انفیکشن ہے۔ عورتوں میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق قریباً 90000عورتیں ہر سال، جب کہ ہر9ویں عورت اس کا شکارہے، جس کے لیے آگہی اور بروقت تشخیص کی ضرورت ہے۔ 

خاتون اول آصفہ بھٹو نے بھی اپنے پیغام میں کہا ہےکہ صحت کو اہمیت دیں، خاموشی توڑیں اور آگہی پھیلائیں۔ عورتوں میں سروائیکل کینسر بھی اموات کی دوسری بڑی وجہ بن گیا ہے۔ 2025ء میں5000کیسز رپورٹ ہوئے، 3200عورتیں فوت ہوگئیں۔ پاکستان میں قریباً20ملین خواتین اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں، ہر روز8 عورتیں سروائیکل کینسر کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔

ستمبر2025ء میں فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف امیونائزیشنFDIکے زیرانتظام HPV ویکسن لگانے کی مہم شروع ہوئی جو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کے لیے ہے، بچیوں کو یہ ویکسین والدین کی تحریری اجازت کے ساتھ مفت لگائی گئی، مگر پھر وہی منفی پروپیگنڈہ شروع ہوا، جس میں سوشل میڈیا نے بڑا حصہ ڈالا۔ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 

ہر10 میں سے 3شہری ذیابیطس میں مبتلا ہیں، اب تک ان کی تعداد 3 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ دنیا بھر میں ذیابطیس کے مریضوں کے حوالے سے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ 2025ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بالغ آبادی میں ذیابیطس کا پھیلاؤ 30.8فیصد ہے۔ کم کھائیں، زیادہ چلیں کا فارمولا ذیابطیس سے بچاؤ کا پہلا اصول ہے۔ حکومتی اقدامات میں سب سے پہلے میٹھے مشروبات پر بھاری ٹیکس عائد کردینا چاہیے۔

ذیابیطس، موٹاپا، تمباکو نوشی اور غیر صحت مند طرز زندگی کی وجہ سےدل اور بلڈ پریشر کے امراض میں بہت اضافہ ہواہے۔ 85فیصد اموات دل کے دورے اور فالج سے ہورہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی2025ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تپ دق کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ 

ملک میں ہر سال686000 افراد ٹی بی سے متاثر ہورہے ہیں۔ سندھ میں قریباً 15427 افراد، جبکہ بلوچستان میں کم از کم 30 ہزار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ سندھ میں T.B کا پتہ لگانے کے لیے جدید ترین مشین ’’جین ایکسپرٹ‘‘ استعمال کی جارہی ہے، جو لوگوں کی سہولت کے لیے مفت ہے۔ پاکستان میں اس وقت 21000افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

اس سال ایڈز سے متاثر رجسرڈ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد کمسن بچوں کی ہے۔صوبہ سندھ میں ایڈز پھیلانے کے ذمہ دار چھ لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹرز اور غیر رجسٹرڈ بلڈ بینک ہیں۔ 

ملک بھر میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے صفائی ستھرائی سے عاری محلے اور گلیوں میں پانی سے مکھیوں اور مچھروں کی خوب افزائش ہوئی، جہاں مکھیوں نے ٹائیفائیڈ اور پیٹ کی دیگر بیماریوں کو پھیلایا، وہیں مچھروں کی بہتات سے ملیریا، ڈینگی اور چکن گونیا میں اضافہ ہوا۔ ان کی افزائش روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے ہی نہیں گئے۔ سندھ میں 2025ء میں ملیریا کے 192571 کیس رپوٹ ہوئے جبکہ ڈینگی کے 2 لاکھ کیس مثبت آئے۔ 

حیدرآباد میں ڈینگی اور ملیریا نے خطرناک صورت اختیار کی۔ ملک بھر میں سگ گزیدگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا، وجہ یہ کہ ہم کتا مار مہم چلا نہیں سکتے، ویسے بھی جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس مہم کی مخالفت کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ چاہے انسان کتوں کے کاٹنے سے ریبیز کا شکار ہوکر زندگی گنوا دیں، صرف کراچی میں کتے کے کاٹے کے 22000کیس رپورٹ ہوئے۔ جیکب آباد میں بھی کتوں اور چوہوں نے750افراد کو کاٹا۔ 

ڈگری میں کتے کے کاٹنے سے9سالہ بچہ ہلاک ہوا، جامشورو میں ایک ہفتے میں14لوگوں کو کتوں نے کاٹا۔ میرپور میں لیڈی پولیو ورکر کتے حملے میں شدید زخمی ہوگئی۔ سندھ میں سانپ کے ڈسنے کے واقعات میں ٹھری میرواہ میں 3 افراد ہلاک جبکہ تھرپارکر میں 2 اور چھاچھرو میں 4 افراد سانپ کے ڈسنے سے ہلاک ہوئے، وجہ بروقت علاج کی سہولتوں کی عدم دستیابی۔ صورت حال دیکھ کر آنکھیں دھندلا گئیں۔

2025ء میں کراچی اور پنجاب کے کئی شہر خصوصاً لاہور فضائی آلودگی میں دنیا بھر میں پہلے، دوسرے نمبر پررہے، جس کا بڑا سبب فصلوں کی باقیات کو جلانا اور ٹریفک ہے۔ لاہور کا ائر کوالٹی انڈیکس 810 تک ریکارڈ کیا گیا۔ فضائی آلودگی اور اسموگ آنکھوں، ناک، کان، گلے اور جلدی بیماریوں کے علاوہ کینسر کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس وقت ملک میں مردوں میں سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر منہ کا سرطان ہے۔ جس کی ایک اوروجہ چھالیہ، مین پوری اور گٹکا بھی ہیں۔

2025ء کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک کروڑ20 لاکھ افراد ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پاکستان دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریضوں والا دوسرا ملک ہے، یہاں اس وقت Hepatites-C کی شرح 4.3 فیصد ہے جو عالمی اوسط سے تقریباً10گنا زیادہ ہے۔

ذہنی صحت پر بات کریں تو ماہرین کے مطابق نوجوانوں میں ذہنی صحت کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ WHO کے مطابق پاکستان میں 8 کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈیپریشن میں اضافہ ہوا،جس کے باعث ایک لاکھ 30ہزار افراد نے خودکشی کی کوشش کی، جس میں سے13ہزارزندگی ہارگئے۔

منشیات کا استعمال بھی بڑھا ،قریباً10.5ملین افراد منشیات کے عادی ہیں، تشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے، تعلیمی اداروں میں بھی نوجوان نشہ کرتے ہیں۔ نشہ آور اشیا آسانی سے دستیاب ہیں، بلکہ اب تو آن لائن سہولت بھی موجود ہے۔

بہت کچھ برا، تو کچھ اچھا بھی ہوا

2025ء میں صحت کے تمام مشکلات اور مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ ملک میں کئی ادارے مریضوں کو بہترین علاج کی سہولیات مفت فراہم کررہے ہیں، جن میںSIUT،NICVD، انڈس اسپتال اور LRBT (آنکھوں کے امراض) شامل ہیں۔ 

ستمبر 2025ء میں حکومت پنجاب نے جدید کوبیشن کینسر ٹریٹمنٹ سینٹر کا افتتاح کیا۔ Cooblation Machne سے مریضوں کا علاج بغیر کیموتھرٖاپی اور ریڈیو تھراپی کے صرف 60 منٹ میں ہوگا۔ اس خطے میں چین کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے جہاں یہ علاج مفت میسر ہے۔

سندھ میں انٹی گریٹڈ ایمرجنسی ہیلتھ سروس شروع کی گئی، یہ سہولت 1123 پر دستیاب ہے۔ نومولود بچوں میں دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ جن میں سب سیز یادہ ٹیڑالوجی آف خالوٹ (ٹوف) کے مریض ہیں جن میں 4 جگہوں سے دل کی بناوٹ خراب ہوتی ہے۔ ملک میں قریباً4000ہزار سے 7000ہزار بچے ٹوف کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں۔ NICVD میں روزانہ دو ٹوف سرجریز ہورہی ہیں، سرجری سے علاج نا کروانے پر ایک سال میں شرح اموات40فیصد ہے۔

سندھ کے وزیراعلیٰ نے 16 ’’فلیگ شپ‘‘ نمایاں صحت کے منصوبوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا، جن میں پیڈیا ٹرک کارڈیک یونٹ بھی شامل ہے۔ چلڈرن پاکستان کے پروگرام کے تحت صحت کے شعبے میں اصلاحات کی جارہی ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس ذیابیطس اور دل کے مریضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔

سندھ حکومت کے ممتا پروگرام میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین ،ماں اور بچے کا معائنہ، بچے کی نشوونما اور حفاظتی ٹیکے شامل ہیں۔ 40فیصد حاملہ خواتین کو اسپتال میں زچگی اور بچوں کی حفاظت کے لیے عورتوں کو41000 روپے اقساط میں دیے جارہے ہیں، اسی طرح پنجاب حکومت نے آغوش پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی مائوں کو23000روپےاقساط میں حمل سے بچے کی پیدائش تک طبی معائنے پر دئیے جائیں گے۔

وفاقی حکومت نے ’’احساس ممتا‘‘ پروگرام حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی مائیں اور دو سال سے کم عمر بچوں کی مائوں کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ دو سال سے کم عمر بچوں کی مائیں جو اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھ پاتی اور اکثر پیدا ہونے والے بچے لاعلاج بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے گورنمنٹ نے احساس ممتا پروگرام شروع کیا ہے۔

پاکستان میں پہلی بار لیاری جرنل اسپتال میں Tele Robotic سرجری 1600کلو میٹر کے فاصلے سے انجام دی گئی۔ جسے کویت میں بیٹھے ڈاکٹر انجام دے رہے تھے۔ NICVD میں پاکستان میں پہلی بار Total Arch Replacement with Frozen Elephant Trmk Technige کے ذریعے 16 سالہ لڑکے کا 16 گھنٹے طویل نایاب دل کا کامیاب آپریشن کیا گیا جس کے لیے ترکی کے کارڈیو ویسکیولر سرجن نے NICVD کی ٹیم کے ساتھ آپریشن کیا۔ سرجری کی لاگت 60لاکھ روپے تھی، جسے حکومت سندھ نے مفت فراہم کیا .PKLI کڈنی اینڈ لیور اسٹی ٹیوٹ نے جگر کی پیوند کاری کے 1000کامیاب آپریشنز کا سنگ میل عبور کرلیا۔ 

پاکستان میں پہلی بار دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا کامیاب آپریشن NICVD اور آغا خان اسپتال کے ڈاکٹرز نے انجام دیا،جس میں سمپیتھیٹک نروز کاٹ کر دل کی دھڑکن کو نارمل کیا گیا۔گمس اسپتال گمبٹ میں ڈاکٹر نے 25 دن کی بچی کا دل کا بند والو بغیر آپریشن کے کھول دیا، اس پروسیجر پر3 سے 4 لاکھ خرچ ہوتے ہیں جو سندھ گورنمنٹ برداشت کرتی ہے۔ 

سکھر میں جدید ٹراما سینٹر مکمل ہونے والا ہے۔ SICH سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹالوجی کے تحت 5 لاکھ سے زائد بچوں کو علاج کی سہولیات مل رہی ہیں۔ 1261 انکیوبیٹرز کے ساتھ یہ ملک کا سب سے بڑا نیونیٹل کیئر سینٹر ہے۔

آئزم سینٹر آف ایکسی لینس کا افتتاح اسلام آباد میں ہوا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ2026ء میں ایک صحت مند پاکستان کے خواب کی تعبیر پوری ہو تو حکومت کے ساتھ ہمیں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوگا۔ اسی طرح ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ 

صحت سے مزید