• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ کپ کر کٹ ٹور نامنٹ میں پاکستانی کر کٹ ٹیم جنوبی افریقا سے ایک وکٹ سے ہارنے اور مسلسل چوتھی ناکامی کے بعدشدید مشکلات کا شکار ہے، بنگلہ دیش کے خلاف اس نے کامیابی حاصل کی، نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کا نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا، جنوبی افریقا اور پاکستان کا میچ رواں ورلڈ کپ کا سب سے دل چسپ اور سنسنی خیز مقابلہ ثابت ہوا، اس میچ کے آخری لمحات میں پاکستانی کھلاڑی جیت کی پوزیشن میں آنے کے باوجود دباؤ میں دکھائی دئیے، محمد نواز کے اوور میں تھرڈ مین پوزیشن پر فیلڈر کا نہ ہونا ہماری شکست کا باعث بنا جس پر کیشو مہاراج نے چوکا مار کر اپنی ٹیم سے ہمکنار کردیا۔ 

پاکستان نے اس میچ میں 50اوورز نہیں کھیلا جس کی وجہ سے کم از کم 20رنز کا فرق پیدا ہوا، اس کے بعد بولنگ میں21رنز فاضل دئیے جس کا خمیازہ ناکامی کی صورت میں بھگتنا پڑا، نیدر لینڈ اور سری لنکا کے خلاف جیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی قومی ٹیم بعد میں بھارت، آسٹریلیا، افغانستان اور جنوبی افریقا کے سامنے بس ہوگئی، پاکستانی ٹیم لگاتار چار شکست کے بعد بدترین دبائو سے دوچار ہے، جن ٹیموں نے اپنی مہم ناکامی سے شروع کی وہ فارم میں آگئی، مگر ہمارے شاہینوں نے اپنی بدترین کار کردگی سے اپنے پَر خود ہی نوچ لئے، چار ناکامی کے بعد بظاہر ایسالگ رہا ہے کہ ہے ورلڈ کپ میں ہمارا سفر اب ختم ہو چکا ہے۔

ہمارا رن ریٹ ہمارے حق میں نہیں، جب کہ دیگر ٹیمیں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایونٹ میں ہماری شرکت برقرار رہنے کا انحصار ایک بار پھر اگر مگر کے گرد گھومنا شروع ہوگیا ہے، پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر ورلڈ کپ میں تیسری کامیابی حاصل کی، ہفتے کو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کا نتیجہ آپ کے سامنے آچکا ہوگا جس سے ٹور نامنٹ میں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہوگیا ہوگا ، گیارہ نومبر کو آخری گروپ میچ انگلینڈ کے خلاف کھیلے گی، یہ میچز ہمارے وقار کی بحالی کے لئے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

اس وقت ٹیم کا مورال بلند کرنا آسان کام نہیں ہے، حد درجہ خراب اور بدترین کار کردگی، دفاعی کپتانی کے سبب ہماری امیدوں کے سب چراغ گل ہوتے نظر آرہے ہیں، اب تک ورلڈ کپ میں ہماری پر فارمنس حیرت انگیز طور پر مایوس کن رہی، بابر اعظم کی کپتانی بھی خطرے سے دوچار دکھائی دے رہی ہے اب تک میگا ایونٹ میں جو کھیل ہمارے کھلاڑیوں نے دکھایا وہ سب کے لیے ہی حیران کن اور ہمارے لیے ایک کمزور پوائنٹ ہے۔ 

ہم کھیل کے تینوں شعبوں میں ناکام ثابت ہوئے، نہ بولرز نے تیر مارا، نہ بیٹرز کا بیٹ چلا اور نہ ہی فیلڈنگ میں کوئی کمال دکھا سکے، ہمارے بیٹسمین تو50اوورز تک کریز پر قیام کو ترجیح نہیں دیتے ہیں، غیر ملکی کوچنگ اسٹاف نے کھلاڑیوں کو کیا سکھایا، کس قدر ان کی فٹنس کا لیول بڑھایا، کتنی ان کی بیٹنگ تیکینک میں بہتری پیدا کی ، ان سوالوں کا جواب کون دے گا،قوم مایوس ہے، کر کٹ ہی ایک ایسا کھیل تھا جہاں سے ماضی میں قوم کو خوشیاں مل رہی تھی، دیگر کھیلوں میں تو مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اب کر کٹ میں بھی ہم زوال کی جانب جارہے ہیں، ہمیں صرف ٹی ٹوئنٹی کے کھلاڑی پیدا کرنے کے بجائے ون ڈے اور ٹیسٹ کر کٹ پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ 

ایونٹ میں پاکستان اپنے آٹھ میچ کھیل چکا ہے، افغانستان کی ٹیم نے حیرت انگیز کار کردگی کا مظاہرہ کیا ، افغانستان نے نیدرلینڈز کو 7وکٹوں سے شکست دے کر ایونٹ میں چوتھی کامیابی حاصل کرلی۔ اور سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے، پوائنٹس ٹیبل پر 8پوائنٹس کے ساتھ پانچویں پوزیشن حاصل کرلی، تادم تحریرپوائنٹس ٹیبل پر بھارت 14 پوائنٹس کے ساتھ پہلے ہی سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرچکا ہے۔ جنوبی افریقا 12پوائنٹس کے ساتھ دوسرے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 8 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔جبکہ پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہراسکتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے شکست کھا جاتی ہے۔بھارت میں ورلڈ کپ میں کسی کو یقین نہ تھا کہ افغانستان کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کا سیمی فائنل کا سفر مشکل ہوجائے گا، پاکستانی ٹیم اپ سیٹ ہوکر سب کو حیران کرگئی۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ 1999 میں نارتھمپٹن میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو شکست دی۔2007میں کنگسٹن جمیکا میں آئر لینڈ نے پاکستان کو ہراکر ٹورنامنٹ سے باہر کردیا۔

گذشتہ سال ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں پاکستان زمبابوے سے ہارنے کے باوجود فائنل میں پہنچ گیا۔چنئی کے چدم برم اسٹیڈیم میں پاکستان کا حریف کے خلاف ون ڈے میںجیت کا ریکارڈ سوفیصد تھا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ افغانستان یہ جیت آسانی سے حاصل کرکے نئی تاریخ رقم کرے گی۔ افغانستان نے ایک اور بڑا اپ سیٹ کرتے ہوئے فیورٹ پاکستانی ٹیم کو 8 وکٹ کی شکست سے دوچار کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کی۔ 

خراب دفاعی کپتانی کی وجہ سے پاکستان کی امیدوں کے چراغ گل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بولنگ لائن کو سب سے مضبوط قرار دیا جارہا تھا لیکن بولر افغان ٹیم کے خلاف 283رنز کے ہدف کا دفاع نہ کرسکے۔مسلسل تیسری شکست اور بدترین کارکردگی کے بعد پاکستان کیلئے اب بھی سیمی فائنل کے امکانات موجود ہیں لیکن اسے بقیہ میچوں میں کامیابی کے ساتھ ساتھ بابر اعظم کی قیادت میں دوسری ٹیموں کے نتائج پر انحصار کرنا ہوگا۔

افغانستان نے چھ گیندیں پہلے ہدف دو وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔افغانستان نے اسپنرز کے شاندار بولنگ اور بیٹرز کی غیر معمولی کارکردگی کے باعث پاکستان کے خلاف پہلی بار ون ڈے انٹر نیشنل میں کامیابی حاصل کی اور پاکستانی بولنگ کو بے جان بنادیا۔بھارت اور آسٹریلیا کے بعد پاکستان کو لگاتار تیسری ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔2019میں بھی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں کوالی فائی نہیں کرسکی تھی۔ 

رواں ورلڈ کپ میں افغانستان نے دفاعی چیمپین انگلینڈ کو بھی شکست دی۔ میچ ہارنے کے بعد بابر اعظم نے خراب فٹنس کو شکست کی بڑی وجہ قرار دیا۔چند ہفتوں سے پاکستان کرکٹ بورڈجس طرح کھانے کی ویڈیوز چلا رہا تھا اس سے یہی لگ رہا تھا کہ کھلاڑیوں کی ڈائٹ پر کوئی کنٹرول نہیں ۔کھلاڑی ورلڈ کپ کے دوران کھانوں پر بے دردی سے ہاتھ صاف کررہے تھے۔ بابر اعظم نے کہا کہ بھی ورلڈ کپ ختم نہیں ہوا ہے کپتانی سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا میں بیٹنگ کے وقت بیٹنگ اور فیلڈنگ کے وقت کپتانی کے بارے میں سوچتا ہوں۔

مجھے علم نہیں کہ سوشل میڈیا پر میرے اور میری ٹیم کے خلاف کیا مہم چل رہی ہے۔ نسیم شاہ کی کمی محسوس ہورہی ہے ہم نے خراب بولنگ اور ناقص فیلڈنگ کی ہے جس سے لگتا ہے کہ ہماری فٹنس کا معیار درست نہیں۔ اس شکست سے ٹیم کو دکھ ہوا ۔بولنگ اور فیلڈنگ اچھی نہیں تھی مڈل اوور میں بھی اسپینرز نے اچھے اوور نہیں کئے اسپنرز نے دبائو نہیں ڈالا۔ کوشش ہوگی جیتنے میچز ہیں انہیں جیتیں، ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کلک نہیں کرپارہی۔

فیلڈنگ میں فوکس پورا نہیں ہورہا۔ بابر اعظم نے کہا کہ بھارت کے بعد آسٹریلیا سے اچھا کھیلے۔ ہمارے پلان کامیاب نہیں ہورہے جو پلان بناتے ہیں اس پر پورا عمل نہیں ہورہا۔ بابر اعظم ساڑھے تین سال قبل سرفراز احمد کی جگہ تینوں فارمیٹ کے کپتان بنے تھے۔اب اگر وہ کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی فٹنس ٹھیک نہیں ہے تو وہ خود بھی اس کے ذمے دار ہیں۔

ویسے تو پاکستان ٹیم کے ساتھ کئی غیر ملکی کوچز ہیں لیکن فیلڈنگ جیسے اہم شعبے کے لئے پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر آفتاب خان کی تقرری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سے قبل عبدالمجید بھی پاکستان ٹیم کے فیلڈنگ کوچ تھے۔اسٹیو رکسن کے دور میں فیلڈنگ کا معیار جس طرح بہتر ہوا تھا اس میں کمی آرہی ہے۔

فیلڈنگ ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی میچ میں فرق ڈال سکتا ہے۔لیکن بابر اعظم کا فیلڈ نگ پر واویلا یہی بتارہا ہے کہ کھلاڑیوں نے اپنی فٹنس پر کام ہی نہیں کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اس وقت سابق کرکٹرز سے مل رہے ہیں۔ ان کی رائے ضرور لی جائے ، ورلڈ کپ کو ختم ہونے کے بعد ٹیم کا ایک بار ہی پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ 

پاکستان میں پی سی بی کھلاڑیوں کے اختلافات کی بھی تردید کررہا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستانی کھلاڑیوں میں لڑائی کی خبروں کو من گھڑت اور پروپیگنڈا پر مبنی قرار دیا ہے۔ پاکستان ٹیم کا میڈیا منیجر ہمیشہ کی طرح صحافیوں کی دسترس سے دور ہے لیکن لاہور میں پی سی بی حکام نے تصدیق کی ہے سوشل میڈیا پر جاری ٹیم میں جھگڑوں اور انتشار کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ آئی سی سی ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی پاکستان کرکٹ ٹیم میں اندرونی اختلافات موجود ہیں۔

کچھ میڈیا میں پھیلائی جانے والی ان افواہوں کے ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے پرزور انداز میں اس بات کا یقین دلایا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں مکمل ہم آہنگی ہے اور ایسے کوئی بھی شواہد موجود نہیں ہیں جن سے ٹیم میں اختلافات کے ان بے بنیاد دعووں کو تقویت ملے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس طرح کی جھوٹی خبروں پر سخت مایوسی ظاہر کی ہے اور زور دیا ہے کہ اس طرح کے الزامات پھیلانے سے قبل یہ یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ صحافتی اخلاقیات اور ذمہ داری انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

خبر کی تردید ضروری ہے لیکن اس کا وقت شائد آئیڈیل نہیں تھا۔ پھر شکست کے بعد سارا کچھ بدل گیا۔ورلڈ کپ کرکٹ میں پاکستان کی افغانستان کے ہاتھوں شکست کےبعد بابر اعظم پریس کانفرنس میں آئے تو ان کا چہرا بتا رہا تھا کہ وہ بڑی اور اہم بازی ہار گئے ہیں۔ وقت گذر گیالیکن اب گری ہوئی ٹیم کو اٹھا نا ہی کپتان کے لئے سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ دیکھیں یہ مشکل مشن کس طرح کامیاب ہوتا ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید