تحریر: سید علی جیلانی…سوئٹزر لینڈ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ جانے کا اتفاق ہوا اور دوپہر تک یادگاروں پر گھومتے ہوئے چشم تصور میں مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو دیکھتا رہا، عظیم مفکر اور شاعر محمد اقبال 1907میں ہائیڈل برگ میں جس مکان میں قیام پذیر تھے وہ دریائے نیکر کے کنارے سڑک کی دوسری طرف واقع ہے اقبال اسی گھر سے نکل کر سڑک کی دوسری طرف دریائے نیکر کے کنارے بیٹھا کرتے تھے اور وہیں پر ’’نیلی آنکھوں اور سیاہ بالوں والی 28سالہ جرمن دوشیزہ ایما‘‘ سے ملاقات ہوئی تھی۔ دریا کا یہ کنارہ بے حد خوبصورت رومان پرور اور سحر انگیز ہے 28سالہ جرمن دوشیزہ ایما کی محبت گو پروان نہ چڑھ سکی لیکن یہ نامکمل تعلق اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گیا تھا، 1907میں اقبال اس وقت 30برس کے لگ بھگ تھے اور نہ صرف شادی شدہ بلکہ دو بچوں کے باپ بھی تھے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اس رہائش گاہ کو شہر کی پارلیمنٹ 1969میں ایک یادگار ورثہ قرار دے چکی ہے، مفکر پاکستان نے انہی رومان پرور کناروں پر بیٹھ کر اک نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے) لکھی تھی جس کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے اس کو یادگاری کتبے پر لکھ کر وہیں نصب کیا گیا ہے، اقبال کا انتخاب ہائیڈل برگ جرمنی کا علم و عرفان کا وہ شہر ہے جہاں جرمنی کی سب سے پہلی اور قدیم یونیورسٹی موجود ہے جو 1386میں قائم ہوئی تھی اس شہر کا ایک اور عالمی اعزاز یہ ہے کہ اس کے 8 باشندوں کو امن کا عالمی نوبل پرائز بھی مل چکا ہے اقبال نے وہاں قیام کے دوران فلسفہ اور اپنی فکر و سوچ کے علاوہ شاعری سے جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا۔ ’’اقبال اور ایما‘‘ کی محبت کی ادھوری داستان اب جرمن کلچر کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے، 9نومبر1877کو پنجاب کے خوبصورت شہر سیالکوٹ میں شیخ نور احمد کے آنگن میں آنکھ کھولنے والے اقبال نے بی اے اور ایم اے کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ انگلستان سے وکالت اور جرمنی سے پی،ایچ ، ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ برطانوی حکومت نے آپ کی علمی اور ادبی خدمات سے متاثر ہو کر آپ کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا۔ قوم نے آپ کو حکیم الامت، شاعرِ مشرق اور ترجمانِ حقیقت کے خطابات سے نوازا۔ اقبال ایک عظیم فلسفی مفکر اور سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے جو زندگی کا لطف اٹھانے کی بجائے قوم کی فکر مندی اور انقلاب برپا کرنے کے لئے شاعری کا سہارا لیتے تھے اُن کا شمار اُن مسلم رہنماؤں میں سے تھا جن کی فکر اور نظریے نے برصیغر پاک و ہند کی حدود سے نکل کر پورے عالم اسلام کو متاثر کیا اُس وقت تمام مسلمان یورپ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اس مایوسی کے اندھیرے میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی امید پیدا کی اور عملی راہ بھی دکھائی۔ علامہ اقبال نے فکرو فن کے کئی جہاں تلاش کرتے ہوئے اپنا فلسفہ خودی پیش کیا۔ علامہ اقبال نے فرمایا جو قوم خودی کو پہچان لیتی ہے وہ کامیابی اور کامرانی کی منزلیں طے کرتی چلی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے سردار عبدالرب نشتر، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی ،مولانا شوکت علی، شیخ عبداللہ کشمیری، پیر سید مہر علی شاہ گو لڑوی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، پنڈت جواہرلعل نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح سمیت 100 سے زائد شخصیات کو خطوط لکھے، ان میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے جذبہ جہاد سے سرشار کرنے، خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری پر آمادہ کرنے، غلامی سے بیزار ہونے، شاندار ماضی پر فخر کرنے اور فرقہ بازی سے اجتناب کرکے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے اور آخر میں بانی پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کر کے مسلمانان برعظیم کو دوقومی نظریہ پر متحد کرکے فرنگیوں اور ہندوئوں کی سازشوں کا مقابلہ کے آزادی حاصل کرنے ایک مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ سلطنت دلیل اور قانون کی بنیاد پر حاصل کرنے پر اُبھارا۔ پھرعلامہ اقبال کی سوچ اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق کلمہ ”لا الہ الااللہ” کی بنیا پر 1947میں پاکستان وجود میں آیا علامہ اقبال کی نظر میں لا الہٰ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظ ہے۔ اگر ہمارے حکمران علامہ اقبال کی فکر اور قائداعظم کے وژن نظریہ پاکستان پر عمل کرتے مسلمانان برصغیر کی خوابوں کا پاکستان بناتے پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظامِ حکومت قائم کر دیتے تو پاکستان کے دو ٹکڑے نہ ہوتے نہ ہی بھارت ہمیں آنکھیں دکھاتا نہ ہی ہمارے ملک میں دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، ہنگامے ہوتے، نہ ہی پاکستان آئی ایم ایف کا مقروض ہوتا مگر اس پاکستان میں آج تک انصاف تعلیم صحت معیشت سمیت ایک بھی شعبہ ان کے خواب کے تعبیروں پر پورا نہیں اتر سکا۔ زندہ قوموں کی پہچان ہے کہ وہ اپنے قومی ہیروں کو اور ان کے اقوال کو یاد رکھتی ہیں اور اپنے مفکرین کے نقشِ قدم پر چل کر کامیابی حاصل کرتی ہیں۔