آئی سی سی ورلڈ کپ کر کٹ ٹور نامنٹ فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہوگیا ہے، سیمی فائنل کی لائن اپ مکمل ہوگئی ہے،دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی ٹیم کے لئے یہ ورلڈ کپ بہت زیادہ مایوس کن رہا،افغانستان کی ٹیم اس اہم مقابلوں میں بے بی آف دی ٹیم ثابت ہوئی جس نے پاکستان سمیت کئی اہم ٹیموں کو ناکامی سے دوچار کیا، جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی تھی پاکستانی ٹیم کا اپنا آخری میچ انگلینڈ سے باقی تھا ، سری لنکا کے خلاف نیوزی لینڈ کی فتح نے ہماری ٹیم کا ٹاپ فور کا سفر مشکل بنادیا تھا، بھارت، جنوبی افریقا اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے سیمی فائنل میں اپنی جگہ پکی کرلی تھی۔
پاک، انگلینڈ میچ کا نتیجہ آپ کے سامنے آنے کے بعد چوتھی سیمی فائنلسٹ ٹیم کا فیصلہ بھی ہوچکا ہوگا،لنکا کے خلاف فتح سے لگ رہا تھا کہ بظاہر نیوزی لینڈ نے پانچویں جیت اور بہتر رن ریٹ کے ساتھ سیمی فائنل میں قدم رکھ دیا ہے، قومی ٹیم کی ایونٹ میں کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو کھیل کے ہرشعبے میں مایوسی کے سواء کچھ نہیں، نہ ہمارے بولرز چلے، نہ بیٹرز نے کوئی کمال کیا، اور نہ ہی فیلڈرزنے مہارت کا ثبوت دیا، ہم اگر مگر اور دوسری ٹیموں کے سہارے آگے بڑھنے کی خوش فہمی کا شکار اور اپنی بقاء کا راستہ تلاش کرتے رہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے لئے چار سالوں میں کوئی تیاری اور منصوبہ بندی ہی نہیں کی، ٹیم کا انتخاب ہو یا میچ کے دوران بنائی جانے والی حکمت عملی ہر جگہ ہم ناکام رہے، پسند نا پسند اور دوستی یاری کی بنیاد پر ٹیم کا انتخاب ہمیں مہنگا پڑ گیا، پاکستانی ٹیم مسلسل تیسرے ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک رسائی میں مشکلات سے دوچار ہوئی ۔ 2015 میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آسٹریلیا سے ہار کر سیمی فائنل کیلئے کوالی فائی نہ کرسکی۔2019 میں سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستان کو آخری میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف چار سو رنز بنانا تھے۔ لیکن پاکستان سیمی فائنل کے لئے کوالی فائی نہ کرسکا تھا۔
ورلڈ کپ اور اس سے قبل ایشیا کپ میں ٹیم کی پر فار منس سے قوم کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، بھاری بھرکم معاوضے والا غیر ملکی کوچنگ اسٹاف پاکستانی ٹیم اور پاکستان کر کٹ پر بھاری بوجھ ثابت ہوا، ٹیم کی مایوس کن کار کردگی کا پوسٹ مارٹم کون کرے گا،ذمے داروں کو کون احتساب کے کٹہرے میں لائے گا، ٹیم کی واپسی کے بعد کپتان کی تبدیلی اور چند کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر نکال کر قوم کے غصے کو ماضی کی طرح ٹھندا کردیا جائے گا،مر خامیوں کی جڑ تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی،سیاسی بنیادوں پر بورڈ میں عہدے کی بندر بانٹ کو ختم کرنا ہوگا،اہل لوگوں کو ٹیم کے ساتھ ذمے داریاں دینا ہوگی،اس کے بغیر اس مقبول ترین کھیل کو ہاکی اور دیگر کھیلوں کی طرح تباہ ہونے سے بچایا نہیں جاسکے گا،آج ورلڈ کپ میںپوائنٹس ٹیبل پر 8 میچوں میں16 پوائنٹس کے ساتھ ٹاپ پر بھارت کو آخری لیگ میچ نیدر لینڈ کے خلاف کھیلنا ہوگا،ورلڈ کپ سے پہلے انضمام الحق کے چیف سلیکٹر بننے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک مضبوط ٹیم بنائیں گے اور کچھ نئے چہرے بھارت جائیں گے لیکن ایسا لگا کہ وہ بھی مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔پھر مفادات کے ٹکراو کا سنگین اسکینڈل آنے پر انہوں نے استعفی دے دیا۔
اگر آپ پاکستان میں ہیں تو شاید آپ کو اس صورتحال کا پتہ نہیں چل سکے گا لیکن بھارت میں ورلڈ کپ کی کوریج کے دوران اوپر تلے کئی تنازعات نے ملک کے مقبول ترین کھیل کو پستی میں دھکیل دیا اور بحیثیت پاکستانی یہ صورتحال ہمارے لئے ندامت اور شرمندگی کا سبب بنی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں چار لگاتار میچ ہارنے کے بعد ٹورنامنٹ میں واپسی کے لئے کوششوں میں مصروف تھی ایسے میں پاکستان میں کرکٹ کا تماشاہ چل رہا تھاکچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ ذکاء اشرف کو توسیع نہ ملے اور کچھ لوگوں نے اپنے سوٹ استری کراکر پی سی بی میں جانے کی تیاری کر لی تھی ایسے میں حکومت پاکستان نے پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی اورذکااشرف کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کردی ۔دوسری جانب ذکاء اشرف کو توسیع ملتے ہی ان کی انضمام الحق کے درمیان سرد جنگ میڈیا میں شروع ہوگئی ، پی سی بی نے انضمام الحق کا استعفی منظور کر لیا۔
آئی پی سی منسٹری کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق وفاقی کابینہ نے ذکاءاشرف کی سربراہی میں بننے والی مینجمنٹ کمیٹی کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کردی۔ کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کی مدت میں توسیع کی منظوری دی۔ سمری میں مینجمنٹ کمیٹی کے اختیارات کو محدود ہونے کا خصوصی طور پر حوالہ دیا گیا ۔ انہیں زور دیا گیا ہے کہ وہ روز مرہ کے معاملات تک محدود رہیں۔ سمری کے مطابق مینجمنٹ کمیٹی روز مرہ کے امور نمٹائے گی، کسی قسم کی تعیناتیوں کا اختیار نہیں ہوگا۔
ذکا اشرف اس وقت 10 رکنی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ذکا اشرف کی قیادت میں منیجمنٹ کمیٹی جولائی 2023 میں چار ماہ کی مدت کے لیے بنائی گئی تھی اور وزیراعظم نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے اسی کمیٹی کو تین ماہ کی توسیع دی ۔اس سے قبل چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے خلاف الزامات کے بعد عہدہ چھوڑ دیا لیکن اس استعفے کے بعد تنازعات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انضمام الحق نے نے کہا کہ میں نے ٹیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا بلکہ بورڈ نے میرے حوالے سے ایک فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی جس کے بعد میں نے کہا تھا کہ میں مستعفی ہو جاتا ہوں اور آپ اپنی تحقیقات مکمل کر لیں اور اس کے بعد ہم بیٹھ کر فیصلہ کر لیں گے۔
مجھے اور بورڈ کو ایک ہی پیج پرہونا چاہیے تھا جس سے اچھا میسج جاتا تھا، جس وقت یہ بیان دیا گیا تھا کہ میں نے ٹیم انضمام اور بابر کو دے دی تھی، اگر اس وقت یہ بیان دیا جاتا کہ چیف سلیکٹر بھی ہمارا ہے، ٹیم بھی ہماری ہے اور کپتان بھی ہمارا ہے اور یہ میسج ہمارے بورڈ کی طرف سے لڑکوں کو جاتا تو ان کے دل بڑے ہو جاتے لیکن اس کے بجائے یہ میسج ملا کہ چیف سلیکٹر کے خلاف ایک فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی ہے۔
مفادات کے ٹکراؤ اور کھلاڑیوں کے ایجنٹ کی کمپنی کے حوالے سے سوال پر چیف سلیکٹر نے کہا کہ سایا کمپنی کھلاڑیوں کے معاملات کو دیکھتی ہے، وہ میرے معاملات بھی دیکھتے ہیں، ایسی کمپنی آئی سی سی کی جانب سے منظور شدہ ہوتی ہے اور بورڈ کے پاس ان کا سارا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، اسی طرح یازو کمپنی 2020 میں جب کووڈ تھا تو ہم نے ایمازون پر کام کرنے کے لیے بنائی تھی کہ جس میں انگلینڈ میں جو سائیکلوں کے ہیلمٹ ہوتے ہیں، یہ اس کمپنی نے دینے تھے لیکن اس میں ہماری کوئی ٹرانزیکشن شروع ہی نہیں ہوئی، اس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ سینٹرل کنٹریکٹ جون میں دیا جاتا ہے اور میں ستمبر میں آیا تھا، جب ان سے ستمبر تک مسئلہ حل نہ ہوا تو چیئرمین پی سی بی نے آن ریکارڈ کہا کہ انضمام سے کہو، وہ مسئلہ حل کرا دیتا ہے، جس دن ٹیم ورلڈ کپ کے لیے جا رہی تھی، اس دن پی سی بی کے دفتر میں بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کیا گیا اور پھر ٹیم گئی۔
انضمام الحق نے کہا کہ آپ کو تو مجھے کریڈٹ دینا چاہیے تھا کہ جو مسئلہ تین چار مہینوں سے حل نہیں ہو رہا تھا اس کو بیٹھ کر حل کرا دیا اور بعد میں آپ مجھ پر ہی الزام لگا رہے ہیں، چیئرمین بورڈ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے فائنڈنگ کمیٹی بنائی تو میں نے ان سے جا کر کہا ہے کہ یہ خبریں آ رہی ہیں کہ انضمام نے بلیک میل کیا ہے کہ اگر آپ کھلاڑیوں کا کنٹریکٹ نہیں دیں گے تو ٹیم ورلڈ کپ پر نہیں جائے گی، آپ یازو کمپنی کی تحقیق ضرور کرائیں۔
انضمام نے کہا کہ مجھے جواب دیا گیا کہ ہم ایسا کوئی بیان نہیں دے سکتے، میں نے کہا کہ آپ کیوں نہیں دے سکتے، میں آپ کا چیف سلیکٹر ہوں اور اگر آپ میری ذمہ داری نہیں لیں گے تو کون لے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی ذمہ داری نہیں لے سکتے اور آپ پر فائنڈنگ کمیٹی بنے گی، اس بات پر میں نے کہا کہ اگر آپ نے فائنڈنگ کمیٹی بنانی ہے تو میں مستعفی ہو جاتا ہوں تاکہ آپ تحقیق کر لیں۔میں نے اور میرے وکیل نے بورڈ کو ای میل کی کہ جو بھی فائنڈنگ ہو رہی ہے تو ہمیں بلایا جائے اور ہمیں ساری چیزیں بتائی جائیں لیکن نہ ہماری ای میل کا جواب دیا جا رہا ہے نہ ہمیں بلایا جا رہا ہے اور نہ بتایا جا رہا ہے کہ کس بات کی تحقیق ہو رہی ہے جبکہ مجھے یہ بات بھی ٹی وی سے معلوم ہوئی ہے کہ بورڈ نے میرا استعفیٰ قبول نہیں کیا۔
انضمام نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کے انتخاب میں بورڈ کی جانب سے انہیں اور کپتان بابر اعظم کو مکمل اختیار دینے کے پی سی بی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ٹیم کے پیچھے کھڑا ہوں اور بری کارکردگی کے بعد بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا تماشا لگا ہوا ہے پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں توقعات پر پورا نہیں اتر سکی ۔فیلڈنگ کوچ اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر آفتاب خان نے کہا ہے کہ فیلڈنگ کو پاکستان ٹیم میں رہ کر بہتر نہیں کیا جاسکتااس بارے میں قومی اکیڈمی اور گراس روٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری ٹیمیں ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ میں فیلڈنگ کے ذریعے نتائج دیتی ہیں لیکن ہم پاکستان ٹیم میں فیلڈنگ کے بیسک پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ہمارا کلچر ایسا ہے کہ ہم ڈومیسٹک میں فیلڈنگ کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔پاکستان ٹیم میں، میں جو کام کررہا ہوں وہ ہمارے ڈومیسٹک اور قومی اکیڈمی میںہونا چا ہئےمیں تین چار ماہ سے لڑکوں کے ساتھ بنیادی سطح پرکام کررہا ہوں انہیں بتانا پڑتا ہے کہ گیند کس طرح پکڑی جاتی ہے۔
یہ لڑکے بہت اچھے ہیں ایسا گروپ بہت عرصے بعد ملا ہےسیکھنے کی کوشش کرتے ہیں فیلڈنگ موجودہ دور میں اہم ہے آپ کسی فیلڈر کو چھپانہیں سکتے اگر ہم نے آنے والے سیزن میں فیلڈنگ پر توجہ نہ دی ہمیں مشکلات پیش آئیں گی۔مسائل بہت ہیں اور ملک کا مقبول ترین کھیل مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور کسی ایسے مسیحا کی تلاش ہے جو اس کھیل کو طوفان سے نکالے اور تنازعات سے بچائے۔لیکن ذکاء اشرف کے لئے تین ماہ مشکل اور آزمائش سے کم نہیں ہیں۔