سوچ کے نہاں خانے میں جب کالم پروان چڑھا، تو ذہن کے پیمانے میں اس کا عنوان ’’پی ٹی آئی مگر تر نوالہ نہیں‘‘، رقصاں ہوا۔ غور کیا تو عنوان وزن پر لگا، مزید حیرت یوں ہوئی کہ یہ تو ایسا مصرع ہے جو فیض صاحب کے شہرہ آفاق کلام، ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، کی بحر میں ہے۔ عجب اتفاق ہے مگر کہاں پی ٹی آئی جس کے نام نہاد راہنما ذرہ برابر جبر پر صبر نہ کر سکے، ٹوٹ پھوٹ کر کسی نے نئی راہبری میں پناہ لی تو کئی نے نئی جماعت کھڑی کر دی۔ نظم کے چند اور اشعار میں ایسے رزم میں قرباں گاہ کے اسلوب ورموز کی طرف اشارہ ہے۔ تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم، دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔ تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم، نیم تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اپنا غم تھا گواہی ترے حُسن کی، دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم۔ قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!! وائے افسوس پی ٹی آئی کے عشاق کے قافلے سرِ راہ ہی بکھر گئے۔ ہمارا عنوان چونکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی طرف ہے جو گو کہ کسی فکر ونظریے سے نابلد ہیں، مگر پھر بھی ان سے مخالفین خائف ہیں۔ یاد رہے کہ فیض صاحب نے مذکورہ نظم 1953 میں امریکہ میں سزائے موت پانے والے اشتراکی فکر سے جڑے جوڑے کیلئے لکھی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے زیر اثر دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک جانب سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا اور دوسری جانب مزدوروں کی اشتراکی دنیا۔ اس دوران سوویت یونین کیلئے جاسوسی کرنے کے جھوٹے الزام میں امریکا نے جولیس اور اُن کی اہلیہ ایتھل روزن برگ کو دنیا بھر کی رحم کی اپیلوں کے باوجود برقی کرسی پر بٹھا کر سزائے موت دیدی۔17 جولائی 1950 کو ایف بی آئی نے جب اس جوڑے کو گرفتار کیا تو جیل میں ان پر طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ وہ اپنے دیگر اشتراکی ساتھیوں کے نام بتا دیں، جولیس نے سب کچھ برداشت کیا مگر اپنی زبان نہ کھولی۔ امریکی حکومت نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر وہ اعترافِ جرم کر لیں تو اُن کی سزا تبدیل ہو سکتی ہے لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے، تاہم ان کا اصرار تھا کہ وہ کمیونسٹ خیالات پر تو نازاں ہیں لیکن اُنہوں نے یہ جرم نہیں کیا، اشتراکیت سوچ سے مگر خائف امریکا کو تو بہانہ درکار تھا۔ عالمی رائے عامہ کے مطابق ان دونوں میاں بیوی کو کمیونسٹ ہونے کی سزا دی گئی اور ان کا جرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ دنیا بھر کے رہنمائوں کی اپیلوں کے باوجود 19 جون 1953 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ فیض صاحب ان دنوں راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں منٹگمری جیل میں تھے، اس واقعہ سے متعلق معلومات کسی طرح ان تک پہنچ گئیں۔ یوں 15مئی 1954 کو انھوں نے اپنی معرکہ آرا نظم لکھی جس کا پہلا مصرعہ تھا، ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اس نظریاتی رومانوی داستان میں ہماری سیاست کے حوالے سے جہاں یہ درس پنہاں ہے کہ ہمارے ہاں نظریات ناپید رہے، جو جماعتیں ایک فکر پر استوار تھیں اُن کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، بنابریں ایسے عالم میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے شکوہ سنج ہونا کہ وہ ذرا سے جبر پر تو بہ تائب ہو رہے ہیں، عبث ہے۔ ہمارے ہاں کی قیادت کی سوچ ہی یہی ہے کہ سب قائد کے تابعدار رہیں، وہ ذیلی قیادت کی آبیاری کے روا دار ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ سیاست کے نام پر دھبہ ایسے عناصر نکتہ برابر سختی برادشت نہیں کر سکتے اور سوکھے پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بڑی جماعتیں، ہجوم ہوتی ہیں۔ عمران خان کی ساری توجہ خود ساختگی پر تھی، یہی ن لیگ کا مخمصہ ہے۔ یوں تو اُن کے راہنما پچھلے ادوار میں ثابت قدم رہے لیکن تنظیمی سازی کے حوالے سے شائد ہی کہیں اُن کی جماعتی ساخت موجود ہو، انتخابات کا مطالبہ کرنے والی یہ جماعتیں اپنی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کو ضروری ہی نہیں سمجھتیں۔ ان تما م حقائق کے باوجود مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ان دنوں جو بھی نقشہ مشہود ہے، مگر اُس کا ووٹر سخت جان ہے۔ عام تاثر یہ ہےکہ عمران خان کی عدم شرکت کے باوجود اگر پی ٹی آئی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو دیگر صوبوں کی بات ہی کیا، جو دھمال پنجاب میں ہو گی، اُس کا تصور ہی محال ہے۔ عمران خان اپنے کارکنوں کو کسی فکری ونظریاتی ساخت پر تو مجتمع نہیں کر سکے، لیکن اُن کا ووٹر خان کی طلسماتی شخصیت کے باوصف اس قدر جنونی ہے کہ وہ ہر حال میں پولنگ اسٹیشن جائیگا، اس لئے ہمارا کہنا فقط یہی ہے کہ ابن الوقت رہنمائوں کے نظریاتی ضعف کے باوجود پی ٹی آئی کو تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)