’’دہرازائی‘‘ (Diagenesis) یا دُہری تخلیق حقیقتاً اس طبعی اور کیمیائی ماحول کی تبدیلی کا لازمی نتیجہ ہے ،جس سے ہر رسوب تہہ نشینی اور ہر نوعمر رسوب کے اُوپر تلے جمع ہونے کی وجہ سے تدفین(گہرائی میں جانا ) کے بعد گزرتا ہے۔ چونکہ سطح زمین کے نیچے واقع ماحول اپنی کئی خصوصیات میں سطح زمین پر موجود ماحول سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس رسوب میں موجود معدنی ذرّات اپنے تبدیل شدہ ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لئے مختلف نوعیت کی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔
مثلاً ابتدائی تہہ نشینی (گہرائی میں جانے سے پہلے) کے دوران ناپائیدار جذب شُدہ پانی والا ’’کلے‘‘ مائونٹ موریلو نائٹ پائیدار ’’شیل‘‘ اور تدفین (گہرائی میں جانے کے بعد) پائیدار ابرق نما کلے (ایلائیٹ) میں تبادلہ ہو جاتا ہے۔ جب یہ عمل اپنے منطقی حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسی پائیدار رسوبی چٹان وجود میں آتی ہے جو قدرتی وسائل خصوصاً تیل و گیس اور ذخیرہ اندوزی اور دریافت میں ایک اہم ترین درجہ رکھتی ہیں۔ یہاں پر پائیداری سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی معدن یا مادّہ اس وقت ہوتا ہے جب کافی مدّت گزر جانے کے باوجود وہ کسی دُوسرے مادّہ سے تعامّل یا تبدیل ہو کر کسی نئے معدن یا مادّہ میں تبدیل نہ ہو سکے۔
ان تمام پوشیدہ حقائق کو اُجاگر کرنے کے لئے ’’دہرازائی‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے ایک جرمن ماہر حجریات ’’وان گیمبل‘‘ (Von Gumball) نے 1889ء میں سائنسی حلقوں کے درمیان متعارف کراتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ زیرزمین رسوبی ماحول میں جو طبعی اور کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ ایک نوعمر رسوب میں تہہ نشینی کے دوران ہوتی ہیں اسے ’’دہرازائی‘‘ کا عمل کہتے ہیں۔
اس اصطلاح کو ارضیاتی سائنس میں پیش کئے ہوئے ایک صدی کے لگ بھگ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی اس تصور کی بابت اور اس کی دُرست تاریخ کے مطابق ’’معلم ارضیات‘‘ کے درمیان خاصاً اختلاف رائے موجود ہے ،کیوں کہ ’’دہرازائی‘‘ عمل کے ساتھ اس سے منسلک ایک اور عمل بھی کارفرما ہوتا ہے جسے ’’تغیر‘‘ (Metamorphism) کا عمل کہتے ہیں۔
لیکن ان دونوں میں واضح فرق موجود ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’دہرازائی‘‘ کا عمل زیرزمین اتھلی گہرائی تک محدود ہوتا ہے جب کہ ’’تغیر‘‘ کا عمل اس سے کہیں زیادہ گہرائی میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لہٰذا اہل سائنس ’’دہرازائی‘‘ اور تغیر کے عمل کے مابین موجود حدبندی کی وضاحت کی کوششوں میں مسلسل سرگراں رہےہیں، جس کے نتیجہ میں دور حاضر کے ایک معروف ماہر حجریات پی۔ٹی۔ جان (Pettyjonn) نے ان تمام تبدیلیوں کو جو قبل از تہہ نشی اور بعد تدفین کے کسی رسوب میں جاری ہوتی ہیں۔ اس کے دو پہلوئوں کو اُجاگر کیا۔
اس ضمن میں پہلے پہلو سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ ’’تغیر‘‘ کے دوران ماخذ چٹان کی ساخت و معدنی ترکیب میں پائے جانے والے ابتدائی فرق تقریباً ختم ہو جاتے ہیں اور ایک ہم جنس (Homogenous) متغیرہ چٹان معرض وجود میں آتی ہے جب کہ’’دہرازائی‘‘ ماخذ چٹان میں موجود اس فرق کو اور بھی زیادہ اور نمایاں کر دیتا ہے۔ مثلاً ایک کلے بردار کیلشیم کاربونیٹ (چونا پتھر) ہو تو اس میں موجود کلے معدن تغیر کے عمل کے دوران اس طرح تبدیل ہوں گے کہ چٹان تو سنگ مرمر میں ہی تبدیل ہوگا لیکن کلے معدن اس کے اندر دوبارہ قلمائو کے عمل سے گزر جائیں گے۔ اس کے برعکس ایک سلیکا بردار چونا پتھر ’’دہرازائی‘‘ کے عمل سے گزرے تو اس میں موجود سلیکا حل ہو کر مترشح ہوتا ہے ،جس کے نتیجہ میں چرٹ کے گرہ (Nodules) اور دھاریاں ملتے ہیں۔
1977ء میں (پریس اورسیور ارتھ) کے حوالے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’دہرازائی‘‘ کے عمل کا دورانیہ مختلف حالات میں مختلف ہوتا ہے۔ بالعموم یہ اُس وقت شروع ہو جاتا ہے جب ایک رسوبی تہہ پر ایک دُوسری دبیز تہہ جمع ہو جاتی ہے۔ اس طرح پچھلی تہہ کا تعلق اپنے ماحول سے منقطع ہو جاتا ہے اور یہ عمل اُس وقت تک (درجہ ٔحرارت 300 ڈگری سینٹی گریڈ اور گہرائی 5.5 کلومیٹر) جاری رہتا ہے جب تک درجہ ٔحرارت اور گہرائی میں اضافہ نہ ہو۔ جب درجۂ حرارت 300 ڈگری سینٹی گریڈ اور گہرائی 6.5 کلومیٹر سے زیادہ ہو جاتا ہے تو پھرتغیر کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔
اس ماحول میں بسا اوقات ’’دہرازائی‘‘ کا ایک ابتدائی دور اس وقت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جب رسوب ابھی مکمل طور پر دفن نہ ہوئے ہوں اور ان کا براہ راست تعلق سمندر کے پانی سے برقرار رہے۔ اس مرحلے میں جو تبدیلیاں رسوبی مواد میں واقع ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ’’ہل مائیرو لاسیز‘‘ (Halmyrolysis) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
اس کا اندازہ اس وقت لگایا جا سکتا ہے جب نوعمر مڈ اور ریت کا قدیم دور کے تہہ شدہ شیل اور ریت پتھر سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان دونوں کی ترکیبی اور بافت میں تہہ نشینی کے بعد بہت سارے عوامل کے زیر اثر تبدیلی آتی ہے اور مجموعی طور پر ’’گومڑے‘‘ (Lumps) میں بدل جاتے ہیں جسے ’’طبعی دہرازائی‘‘ کہتے ہیں۔
یہ عام طور پر نرم رسوب کو سخت کر کے پائیدار چٹان کی شکل دیتا ہے۔ یعنی یہ پرت دار ہوتے جاتے ہیں۔ یہ عمل معدنی ترکیبی میں ردوبدل اور کچھ نئے معدن کی ترتیب بھی کرتا ہے۔ سب سے بڑا ’’طبعی دہرازائی‘‘ کا عمل ’’جمائو‘‘ کے ذریعہ ہوتا ہے،جس دوران پرانے ذرّوں کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے وہ نوعمر رسوب کے وزن کی وجہ سے کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور رسوب ایک دُوسرے سے قریب سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے رسوب کے حجم میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں اس میں موجود مسام داروں میں تخفیف واقع ہو جاتی ہے۔
مثلاً نوعمری میں تہہ نشین ہونے والا مڈ (کیچڑ) بہت بلند مسام داری کے حامل ہوتے ہیں۔ اس میں موجود پانی کی بہت بڑی مقدار (60 فی صد) موجود ہوتی ہے،پھر ’’جمائو‘‘ کے عمل سے پانی کا اخراج ہوتا رہتاہے اور مزید دبائو پڑنے کی صورت میں ایک پائیدار رسوبی چٹان ’’شیل‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی بھی رسوب میں مسام داری میں بڑی کمی اس وقت بھی ظاہر ہوتی ہے جب ’’دہرازائی‘‘ عمل کے تحت معدنی ذرّات کی ترسیب ذرّوں کے خلاء کے درمیان ہوتی ہے۔
اس کے برعکس وہ تمام تبدیلیاں جو ذرّوں کی تدفین کے بعد اس وقت واقع ہوتی ہیں جب اس کا تعلق سمندری پانی سے منقطع ہو جاتا ہے اسے ’’میتھامارفیسز‘‘ (Methamorphesis) کہتے ہیں، جس میں دو طرح کی تبدیلیوں کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ پہلا رُجحان توازن (پائیداری) اور غیرتوازن (غیرپائیداری) آمیزوں کے درمیان ہوتا ہے جو مختلف ترکیب والے معدن پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا تعلق مختلف اجزائے ترکیبی رکھنے والی چٹانوں سے مستخرج (Derive) ہوتا ہے اور رسوب کاری کے دوران شکستہ رسوب کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔
مثلاً کیمیائی ترسیب کے دوران ماحول سے شامل ہونے والا کیلسائیٹ۔ چنانچہ رسوب کاری کے دوران دو مختلف معادن کا آمیزہ جو دو الگ الگ ماخذ چٹان (آتشی چٹان) سے تعلق رکھتے ہیں۔ آمیزوں کی صورت میں موجود یہ معدن اپنے تخلیقی ماحول کے بالکل برعکس موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً :سوڈیم بردار پلیجو کلینر فلسپار ’’گرینائیٹ‘‘ چٹان سے اور کیلشیم بردار پلیجو کلینر ’’بسالٹ‘‘ سے شامل ہوتا ہے۔ کیمیائی دہرازائی عمل سے کیلشیم بردار فلسپار حل ہو جاتا ہے اور سوڈیم بردار فلسپار ترسیب کے عمل سے گزرتا ہے۔ اس طرح چٹان کیمیائی توازن کی طرف مائل ہو جاتا ہے، جس سے ایک ہم جنس زیادہ پائیدار پلیجو کلینر کی ترکیب سامنے آتی ہے۔
غیرمتوازی کیفیت کی ایک اور مثال کاربونیٹ رسوب یعنی ’’آراگونائیٹ‘‘ (Aragonite) کی ہے جو خود بخود ایک لمبی مدت گزرنے کے بعد کیلسائیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ کیلشیم کاربونیٹ کی ایک قسم جو کم درجۂ حرارت اور دبائو پر پائیدار ہوتے ہیں۔ اس توازن کے رُجحان کے نتیجے میں دُوسرے کیمیائی تعامل کے درمیان غیرپائیدار معادن جو دُوسرے نئے معدن کی تخلیق کرتا ہے اور اس طرح ایک پائیدار ترکیب کی چٹان معرض وجود میں آتی ہے۔ جب کہ دُوسرا رُجحان رسوب کی تہہ نشینی اور تدفین کے متعلق ہے۔ جو زیادہ کرسٹ کی گہرائی سے وابستہ ہوتا ہے۔
جب کسی رسوب کی تدفین ہوتی ہے تو یہ بلند درجۂ حرارت کی زد میں پہنچتا جاتا ہے۔ یعنی اوسطاً ایک ڈگری سینٹی گریڈ پر 30 میٹر گہرائی اور بلند دبائو اوسطاً ایک فضائی دبائو پر 4.4 میٹر گہرائی۔ جب معادن اور مساموں کے اطراف زیرزمین پانی شدید گرم ہو جاتا ہے اور بلند دبائو کی زد میں آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر کیمیائی تعامل کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر یہی عمل ایک لمبے عرصے تک جاری رہے تو پھر ’’تغیر‘‘ کا عمل پوری طرح سے غالب آ جاتا ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں پر ’’دہرازائی‘‘ اور تغیر کے عمل کے درمیان 300ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کی حد بندی کھینچی جا سکتی ہے۔
پیٹرولیم (تیل و گیس) اور زیرزمین پانی کی دریافت اور معیار کے حوالے سے دہرازائی عملی طور پر خصوصی مقام حاصل ہے ،کیوں کہ کسی بھی چٹانی فارمیشن سے ان کا حصول اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ چٹانی فارمیشن میں مسام داری کی نوعیت کیا ہے۔ اگر زیادہ ہے تو نفع بخش ہوتا ہے ،جس کا تجزیہ ’’دہرازائی جکڑبندی‘‘ سے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رسوب میں عام طور پر نامیاتی باقیات موجود ہوتی ہیں۔ سطح زمین کے نیچے تقریباً 0-120 ڈگری سینٹی گریڈ اور 0-2.5 کلومیٹر کی گہرائی میں یہ نامیاتی باقیات مختلف قسم کے کیمیائی اور خورد حیاتیاتی تبدیلیوں سے گزرتا ہے ،جس کے نتیجے میں موجود تمام تر آکسیجن استعمال ہو جاتی ہے۔
نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور ہائیڈروجن سلفائیڈ وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب یہ گیس رسوب کے اندر موجود پانی میں حل ہو جاتی ہیں تو ایک تخفیفی ماحول تشکیل پاتا ہے ،جس سے تخفیفی بیکٹیریا کی تخلیق ہوتی ہے جو نامیاتی اشیاء مختلف درجۂ حرارت اور دبائو پر بتدریج تیل اور گیس یا پھر دونوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
دلدلی علاقوں کا ماحول ’’تخفیفی‘‘ ہوتا ہے ۔جہاں پر نامیاتی باقیات دہرازائی کے عمل کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ یہاں پر نامیاتی باقیات کائی اور فرن کے زیرزمین دبے اور پھنسے ہوئے پودے اور درخت سخت اور بھورے رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جس میں موجود نباتاتی جڑیں اور بیج واضح طور پر نظر آتے ہیں جو پیٹ (Peat) یعنی ابتدائی کوئلہ کہلاتا ہے جو دہرازائی عمل کا پہلا محاصل ہوتا ہے۔
لیکن ارتقائے وقت کے ساتھ یہ دلدلی علاقے نرم مٹی میں دھنستے چلے اور درجۂ حرارت میں اضافے کے ساتھ پیٹ مزید سخت ہو کر لیگنائیٹ (Lignite) میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن جب یہی کوئلہ دہرازائی کی حدبندی سے تجاوز کر تا ہے اور عمیق گہرائی میں ’’تغیر‘‘ کے حدود میں داخل ہو جاتا ہے تو متغیر ہو کر اینتھیراسائیٹ، گریفائیٹ کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تغیر کا حتمی نتیجہ ہوتا ہے جب کہ تغیر کے عمل کے بعد دوبارہ پگھلائو کی حدبندی آتی ہے۔ جہاں پر تمام نامیاتی اور غیرنامیاتی اشیاء پگھل کر ’’ارضی سیال‘‘ کا اٹوٹ انگ بن جاتے ہیں۔