• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایون فیلڈ، نواز شریف بری، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا کالعدم قرار دیدی، نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی

اسلام آباد (رپورٹ :عاصم جاوید، ایوب ناصر) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیکر نواز شریف کو بری کر دیا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف نیب اپیل واپس لئے جانے پر خارج کر دی۔دوران سماعت جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا استغاثہ کے موقف کو ثابت کرنے کیلئے کوئی دستاویز موجود نہیں، بے نامی کیلئے 4 مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ،کوئی ایک بھی ثابت نہ ہو تو وہ بےنامی کے زمرے میں نہیں آئیگا،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کئے گئے تھے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی، العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کیخلاف نواز شریف کی اپیل کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ سٹیل ملز میں سزا کیخلاف نواز شریف جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ نواز شریف کے وکیل بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ گئے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیل منظور کر کے بری کیا گیا، شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے، آج میں عدالت کے سامنے فرد جرم کے بعد کی کارروائی پر دلائل دوں گا، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر نواز شریف کی اعانت جرم کا الزام تھا، عدالت نے نواز شریف کے دونوں شریک ملزمان کی اپیل منظور کر کے بری کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نیب آرڈیننس کی مختلف شقیں پڑھتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا،بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے، اس پر ہماری معاونت کریں۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا، اس کیس میں اب بس سیکشن 9اے 5بچا ہے جو آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ہے۔ انہوں نے نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھا اور کہا کہ سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں، سیکشن 9اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو بے نامی دار ثابت کیا جائے، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ ملزم کے اثاثے اسکے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے، ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اسکی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اسکے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ جائیدادیں مختلف اوقات میں ایکوائر کی گئیں۔ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہاکہ میں ان کی تاریخیں آپ کو بتا دیتا ہوں، 1993 سے 1996کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ان پراپرٹیز کے حوالے سے اپیل کنندہ کا کوئی تعلق نہیں، پراسیکیوشن نے ریفرنس میں نہیں بتایا کہ ان پراپرٹیز سے کیا تعلق ہے۔ بے نامی، اعانت جرم اور زیر کفالت سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں تشریح کی ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے، معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے، 9 اے 5 کا جرم ثابت کرنے کیلئے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس کیس میں جرم ثابت کرنے کیلئے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں؟ جس پر وکیل نے بتایاکہ ریفرنس میں نہ تاریخیں موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے۔

اہم خبریں سے مزید