مولانا نعمان نعیم
انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زمین پر موجود تمام نعمتوں کو درست انداز میں استعمال کر کے ان سے بہرہ مند ہونا تھا۔ وہ اپنے ماحول کی دیکھ بھال کرتا، تاکہ وہ خود اور اس کی آنے والی نسلیں اس فطری قانون کے ذریعے حاصل ہونے والی نعمتوں سے سرفراز ہو، اور یہ عالم تمام انسانوں کےلیے گہوارۂ امن و سلامتی ہوتا، لیکن انسان ہی کی بداعمالیوں اور مفاد پرستی کی سوچ نے اس خدائی نظام میں رخنہ ڈال دیا ہے، انسانی کرتوتوں کے نتیجے میں دنیا کے اندر مختلف قسم کی آلودگیوں نے سر اٹھایا ہے، جس سے دنیا ایک عظیم فساد کی زد میں ہے، جس کو فساد عظیم ہی کہنا مناسب لگتا ہے۔ جس طرح کہ قرآن کریم فرماتا ہے:’’ظاہر ہوگیا (اورپھیل گیا) فسادخشکی اورتری میں لوگوں کےان اعمال کی وجہ سےجووہ خود اپنے ہاتھوں کرتے ہیں۔‘‘(سورۂ روم:۴۱)
دراصل فساد، نظام فطرت میں تبدیلی لانے، بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی ماحول اور گردو پیش کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ نے جو انتظام و انصرام کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے کا نام ہے۔لہٰذا جو لوگ قوانین فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں یا بدل رہے ہیں اور نظام فطرت کو درہم برہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا ایسے اسباب و عوامل پیدا کر رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے، ہوا کی کثافت، فضاء کی آلودگی اور پانی کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے انسانی وجود کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ماحول پر آلودگی کے مختلف اندازوں سے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہم صرف ماحول کی چار بنیادی ماحولیاتی آلودگیوں پر تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں بحث کریں گی جو کہ حسب ذیل ہیں:۱۔ فضائی آلودگی ۲۔ زمینی آلودگی ۳۔ آبی آلودگی ۴۔ صوتی آلودگی۔
’’فضاء‘‘ انسانی حیات کے بقا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ یکساں طور پر حیوانات، نباتات، انسانوں اورنظر نہ آنے والی کئی مخلوقات کےلیے زندگی کی ضمانت ہے۔جس کے تحت ہم اپنی چوبیس گھنٹوں کی زندگی کے دوران حرکات و سکنات بجا لانے، کام کاج کرنے اور زندہ رہنے کےلیے فضا ہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
فضا کی وسعتوں میں نرم و نازک ہوائیں چلتی ہیں، جن کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی منشاء و مراد سے کسی علاقے یا خطے کے لوگوں کو اس بارش رحمت سے سیراب فرماتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’ وہی ہے جس نے چلائیں ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے آگے اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا۔‘‘(سورۃ الفرقان: ۴۸) ’’اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوش خبری لانے والی اپنی رحمت سے۔‘‘ (سورۃ الاعراف:۵۷)
پھر اسی بارش سے زمین پر گل و گلستان، ہریالی اور خوشی بھرے ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور دیگر جانداروں کے کھانے کا انتظام ہوتا ہے، ارشاد خداوندی سے اشارہ ہوتا ہے:’’فرمایا اب دیکھ لے آدمی اپنے کھانے کوکہ ہم نے ڈالا پانی اوپر سے گرتا ہوا،پھرچیرا زمین کو پھاڑ کر، پھر لگایا اس میں اناج ، انگور، ترکاری ، زیتون ، کھجوریں،میوہ اور گھاس کام چلانے کو تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے۔‘‘( سورۂ عبس:24_32)
مطلب یہ کہ فضا کے اندر یہ مختلف فطری قسم کی تبدیلیاں مثلاًہوا کے اندر آکسیجن کی کثرت، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، دھوپ،گرمی سردی کا اتار چڑھاؤ پھر موسمی تبدیلیاں یہ سب کچھ ایسا توازن بھرا نظام ہے جو کہ انسانی حیات اور دیگر جانداروں کی زندگی کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو جب مختلف طریقوں سے تبدیل کیا گیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی جس سے فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے، فضا کی اسی نوعیت کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے ایسی تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے جن سے آگ اور دھواں (فضائی آلودگی) پھیلتی ہو اور وہ انسانوں کےلیے ضرر رساں ہوں۔ ہوا ہو یا پانی یہ دونوں آب و ہوا کے نام سے ماحول کا حصہ ہیں، نبی کریم ﷺ نے ان کی حفاظت کی تعلیم دی ہے اور انہیں آلودہ کرنے سے منع کیا ہے۔ آب وہوا کو آلودہ کرنے کا ایک سبب کھلی جگہوں پربول وبراز کرنا بھی ہے،چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ا سے منع فرماتے ہوئے کہا:’’تین ایسی چیزوں سے بچو، جو لعنت کا سبب ہیں: مسافروں کے وارد ہونے کی جگہوں پر، سایہ دار درختوں کے نیچے، اور عام راستوں پر بول وبراز کرنے سے۔‘‘(سنن ابوداؤد، کتاب الطہارۃ)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’بچو تم لعنت کے دو کاموں سے۔ (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا: وہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تو راہ میں(جدھر سے لوگ جاتے ہوں) پائخانہ کرنا، دوسری سایہ دار جگہ میں(جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں)پائخانہ کرنا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)
ماحول،گھر، برتن اور سونے کے کمرے کو پر فضا اور صحت اور آرام کے قابل بنانے کے لئے رسول اللہﷺ نے رات کو سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانپ لینے ، دروازوں کو بند کردینے اور چراغ گل کرنے کا حکم فرمایا ہے:’’اپنے برتن ڈھانک لیا کرو، دروازے بند کرلیا کرو اور چراغ بجھا دیا کرو۔‘‘اسی طرح آپ ﷺکا ارشاد ہے:’’یہ آگ تمہاری دشمن ہے۔ پس جب تم سونے لگو تو اسےبجھا دیا کرو۔‘‘( صحیح مسلم)
فضائی آلودگی کوختم کرنے میں درختوں اور جنگلات کا اہم کردار ہے، آپ ﷺنے ایک طرف شجرکاری کی ترغیب دی ہےاور ان کے کاٹنے اور ضایع کرنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:’’اگر تم میں سے کسی پر قیامت آجائے اور اس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اسے چاہیے کہ گاڑدے۔‘‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمن زندگی کی کوئی امید نہ بھی دیکھے، تب بھی اسے فطرت (نیچر )کی حفاظت کرنی چاہیے، کیوں کہ اپنی ذات میں نیچر ایک حسن ہے، گرچہ کسی انسان کو اس سے فائدہ نہ بھی ملتا ہو۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’جو بھی مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی باڑی کرےگا اور اس سے جو پرند، انسان یا کوئی چوپایہ کھائے گا، تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوگا۔‘‘( صحیح بخاری)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو بیری کے درخت کو کاٹتے ہیں، آگ میں چہرے کے بل ڈالے جائیں گے۔‘‘(سنن بیہقی)
اس کرۂ ارض کا ایک تہائی خشکی جبکہ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ زمین کا جو ہر مٹی ہے اور وہی انسانیت کی ابتدا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:بنایاآدمی کوکھنکھناتی مٹی سےجیسے ٹھیکرا۔‘‘(سورۂ الرحمٰن:14) ارشاد پاک ہے:تونے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں۔‘‘(سورۃ الحج: ۶۵)
اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ہر طرح سے سنوارا اس کے اوپر درخت پیڑ پودے اگائے۔ پانی کی نہریں اور چشمے جاری کئے۔ سرسبز شاداب کھیتیاں ہرے بھرے جنگلات بنائے، پھول پھل پیدا کئے،روشنی وتاریکی، آب و ہوا کے منظم انتظامات جاری کئے، تاکہ انسانوں کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہو۔تاہم حضرت انسان نے اپنی بے ترتیب طرز حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ وہ انسان ذات کے لئے امن و اطمینان کا باعث بننے کے بجائے وہ کسی طرح بھی انسان کو روند رکھنے کے در پے ہے۔ صنعتی ترقی جو درحقیقت ماحولیاتی تنزلی ہے، نے فطری ماحول کوابتر سے ابتر بنا لیا ہے۔
زمینی آلودگی کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ،جن میں کچھ وہ ہیں جو قدرتی ہیں جبکہ دوسری انسانی نقل و حرکت کے باعث بنتی ہیں۔ انسانی استعمال میں لائی ہوئی چیزیں، فضلہ جات، ٹھوس اور مادی چیزوں کے انبار،صفائی کے نتیجہ میں اکٹھے ہونے والی چیزیں، تعمیرات اور کارخانہ جات کے فالتو مٹیریل پرانی گلی سڑی چیزیں زرعی اور صنعتی فضلہ جات اور دیگر چیزیں زمین کی آلودگی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔
حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’میرے لئے(میری امت کے لئے) زمین کو سجدہ گاہ (عبادت کرنے کی جگہ) اور پاکیزہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)یہ حدیث زمین کے پاک ہونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ زمین کو پاکی کے ذریعہ/سبب کے طور پر بھی استعمال کرنے میں شامل ہے، جیسا کہ پانی کی عدم موجودگی کی بناء پر زمین کی مٹی سے تیمم کرنے کا بھی حکم ہے۔
حضورﷺنے نہ صرف زمین کے درست استعمال کی ترغیب دی ہے ،بلکہ غیر آباد زمین کو آباد رکھنے سے حاصل ہونے والے فوائد کےلیے بھی ترغیب دی ہے، اور کسی درخت کے لگانے، بیج بونے یا پیاسی زمین کو سیراب کرنے کے کاموں کو نیکی اور احسان والے اعمال قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:’ جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کرتا ہے تو وہ اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)