• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
دسمبر کے عاشقین جس قدر اداس ہوتے ہیں، اس قدر تو معذور لوگ بھی نہیں ہوتے۔ یہ تو طے ہے کہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی کچھ منچلوں کا دل مچلنے لگتا ہے، وہ اس مہینے کو اپنے لئے سال بھر کے رومانس کا جمع شدہ خزانہ سمجھ لیتے ہیں اور اس مہینے کو سمجھتے ہیں کہ بس یہ ہی خوبصورت مہینہ ہے، اس سے علاوہ کوئی نہیں؟ جبکہ جہاں پر اور جس جگہ خدا کا کرم و رحمت اور برکتیں نازل ہوں، اسی کو اہم سمجھنا چاہئے، چاہے وہ کوئی جگہ ہو، مہینہ، دن و سال ہوں، صحت و زندگی ہو یا پھر کوئی مجبوری اور معذوری نہ ہو تو اہم یہ ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ جب آپ کی رسائی کسی بھی شے تک ممکن نہ ہو تو وہ وقت آپ کے لئے کتنا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ کا ہاتھ اپنے کھانے تک پہنچ کر پھر منہ تک آسانی سے لقمہ منہ تک نہ لے جاسکے تو اس محتاجی اور معذوری کو وہی محسوس کرسکتے ہیں، جو اس رحمت سے محروم ہیں، جنہیں اللہ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے، وہ اس کی قدر کیا جانیں۔ہم اپنے دن ماہ و سال کی خوب صورتی اور دیگر انواع و اقسام کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ انہیں یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی جن کی معذوری دور نہ کرسکی تو جان لیجئے کہ نت نئی ایجادات کو ایجاد کرنے والوں سے اوپر بھی ایک تخلیق کار ہے، جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، جس کے حکم کے بغیر انسان سانس نہیں لے سکتا اور پتہ بھی ہل نہیں سکتا، یہ کہ کائنات کی کوئی بھی شے اس کی مرضی و حکم سے علاوہ نہیں۔ اس کا شکر بجا لانے میں ہم کوتاہی برتتے ہیں کہ جس نے ہمیں ناک، کان، آنکھیں، دل و دماغ اور ہاتھ پائوں سے صحت و سلامتی کے ساتھ نواز رکھا ہے۔ زندگی تو وہ بھی گزار رہے ہیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں مگر کیسے زندہ دلی سے کہ اس محرومی کو اپنے پر طاری نہیں کرتے، اپنی محرومیوں کا شکوہ نہیں کرتے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نارمل لوگ کرتے ہیں مگر معاشرے کے معذور افراد کے ساتھ ہم نے آج تک وہ رویہ اختیار نہ کیا جو درد دل رکھنے والے کرتے ہیں۔بات جب عام نارمل لوگوں کی ہو تو وہ دسمبر کو اپنے پر ایسے طاری کرتے ہیں کہ جیسے رومان پروری میں گویا یہ تمام عاشقین کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ اداسیوں کو اپنے گرد لپیٹ کر آہیں اور سسکیاں بھرنا ایسے کرتے ہیں، جیسے ان جیسا بدنصیب ہی کوئی نہیں۔ یہ ناکام عاشقین کے ڈرامے ہیں۔ اب ذر انہیں دیکھئے جو دسمبر میں خود کو رومینٹک دل والا بلکہ دل پھینک عاشق ظاہر کر کے دسمبر کو اپنے لئے ایمان جان کر اس سے بھرپور لطف اٹھاتا ہے۔ دل لگی اور فلرٹ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ دسمبر کی شاموں پر رومینٹک شاعری جھاڑنا ایسے ہی بے کار لوگوں کا کام ہے۔ غرض یہ کہ دسمبر آغاز سے آخر تک نارمل لوگوں کا معقول و نامعقول ترین مشغلہ ہے۔ جب دسمبر میں یہ فضولیات اپنے عروج پر ہوتی ہیں تو وہیں پر معذور افراد کے مسائل کو دور کرنے والے بھی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ ان کے سماجی اور معاشی ترقی کے کام شروع کردیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جنہیں دسمبر میں دل پھینک اور رومینٹک عاشق ہونے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو بھلائی کے کاموں میں کوئی ماہ و سال اپنے لئے مقدم نہیں سمجھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مانتے ہیں کہ معذوروں کو جینے کا حق بھی نارمل لوگوں جیسا ہے، وہ بھی وجود رکھتے ہیں۔ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ جسمانی معذور مگر ذہنی طور پر چاک و چوبند معذور لوگ بھی ماہ و سال کی قدغن سے آزاد ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔ دسمبر کے عاشقین کی مایوس زندگی پر ایسا طبقہ بھی ہے جو ہنستا دکھائی دیتا ہے اور وہ طبقہ یہ معذور طبقہ ہے۔ یہ ہی معذور لوگ مایوسی کو کفر سمجھتے ہیں اور آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہم کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا، ایسے ہی کسی باہمت معذور سے متعلق کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذوری کے باوجود وہیل چیئر پر ساری دنیا دیکھنے کو نکل پڑا۔ اس سے کسی نارمل شخص نے سوال پوچھا تھا کہ آپ کس شے سے مات کھا سکے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا کہ ’’معذوری میری ٹانگوں میں ہے، دماغ میں نہیں۔‘‘ اسی طرح کوئٹہ کے50سالہ صابر بھی آنکھوں کی بینائی سے محرو ہیں مگر کہتے ہیں کہ بے شک میں نے دنیا کی رنگینی نہیں دیکھی، آنکھوں کے اس اندھیرے کو میں نے صرف آنکھوں تک ہی محدود رکھا، اسے دماغ تک پہنچنے نہ دیا۔ اپنی آواز سے چیزوں کو محسوس کرتا ہوں۔ چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر گزارہ کرتا ہوں۔ بعض معذور افراد بھی دوسرے معذوروں کی مدد نارمل انسانوں سے زیادہ کرتے ہیں۔ پولیو کا شکار ضیاء الرحمان نے پولیو کو چیلنج یوں کیا کہ سماجی سرگرمیوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں بھی تمام معذوروں کو گھروں سے نکال کر ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ معذوروں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔3دسمبر کو معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ سے لے کر دنیا بھر کی تنظیمیں، مختلف ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ سیمینارز اور میٹنگز کی جاتی ہیں کہ لوگوں کو ترغیب دی جاسکے، وہ معذور لوگوں کے لئے کچھ کریں یا پھر بہتر سلوک ہی کرسکیں۔ دسمبر کو رومینٹک ماہ سمجھنے والے کبھی ان افراد کا خیال بھی کرلیا کریں!
یورپ سے سے مزید