پاکستان کو اکثر بیرونی دنیا میں سدا بہار بحران زدہ ملک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے ۔ اپریل 2022 ء کے عدم اعتماد کے ووٹ اور بعد میں پیش آنیوالے غیر معمولی واقعات کی وجہ سے اس کی شہرت نے ایک نیا ورق پلٹا ۔ ان واقعات نے پاکستان کو ایسی قطبیت کا شکار کردیا جس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی ۔ اس قطبی تقسیم کے ایک طرف وہ ہیں جنھیں ایسی خطرناک اور منہ زور مقبولیت دکھائی دیتی ہے جو کسی جمہوری قدر کو نہیں مانتی۔ دوسری طرف ایک کرکٹ ہیرو کے حامی ہیں جو انھیں بدعنوانی کے خلاف لڑنے والا قوم کا ایسا مسیحا قرار دیتے ہیں جسے اشرافیہ نے بیرونی ہاتھ کی پشت پناہی سے کی گئی سازشوں کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا ۔ ریشانی کی وجہ یہ ہے کہ ’’عمران خان نہیں تو کوئی نہیں ‘‘ کی سوچ مایوسی پھیلانے کی ایک مرتکز کوشش کی نمائندگی کرتی ہے ۔ مایوسی کا احساس روایتی طور پر انتہا پسندوں کو حمایت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اٹلی اور اسپین میں فسطائیت کا فروغ اور جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی مقبولیت کی وجہ ایسی ہی مایوسی اور ناامیدی کی فضا تھی۔ معاشی مشکلات میں گھرے کمزور اور ناامید افراد کو مثالی دنیا کے خوب صورت وعدے جذبات میں بہا لے جاتے ہیں۔
زیادہ تر کیسز میں عوامی طور پر مقبول سیاسی رہنما اقوام کو اندرونی اور بیرونی کشمکش کا شکار کردیتے ہیں ۔ کچھ کیسز میں وہ ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں جو بیرونی دشمنوں کیلئے سازگار ہوتے ہیں ۔ دونوں طرح کی صورت حال کسی طور خوش گوار نہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قوم کی مایوسی کا تدارک کیا جائے قبل از اس کے کہ یہ قوم کی بقا کا مسئلہ بن جائے ۔ لیکن ایسا محض تقریروں اور بیانات سے نہیں ہوسکتا۔ مقبول رہنما کی جذباتی موسیقی کے عادی کان منطقی دلائل نہیں سنتے ۔ لوگ نجات کے جھوٹے وعدوں کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے وہ طلسمی افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مسلسل اسکرین ٹائم کے دور میں ٹک ٹاک ویڈیوز، مختصر پیغامات، ایکس اور انسٹاگرام پر جھوٹی اور من گھڑت تصاویر کے بہاو میں حقیقت آسانی سے ڈوب جاتی ہے ۔ ایسے لوگوں کیلئے جو اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سی پریشانیوں کی زد میں ہوں، سوشل میڈیا کا ماحول انھیں اسکے متبادل ایک طرح کی اجارہ داری فراہم کردیتا ہے۔ ایکو چیمبر میں رہنے والے لوگ اس کے باہر سے آنے والی معقول آوازیں نہیں سنتے۔
عمران خان کے چاہنے والوں کیلئے حقائق کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ افغانستان سے امریکی انخلاکے بعد سے پاکستان میں امریکہ اور مغرب کی عدم دلچسپی کے بارے میں نہیں پڑھتے ۔ ان کیلئے اس جھوٹ پر یقین کرنا آسان ہے کہ ان کا لیڈر مغرب مخالف طاقتوں کا ایک نیا عالمی اتحاد بنا کر اسلامی احیا کی راہ ہموار کرنے والا تھاجب بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے توانا ہوتے ہوئے گٹھ جوڑ نے اُسے اقتدار سے ہٹا دیا ۔کلٹ کے پیروکار نہیں دیکھ سکتے کہ ان کا تصور کتنا مضحکہ خیز ہے جس میں کمیونسٹ چین اور نئے دور کی سامراجی طاقت،روس اسلام کی عالمی سربلندی کیلئے ان کا ساتھ دیں گے۔ وہ روس کے ساتھ ترکی کے مسائل، یا اس کی امریکی زیر قیادت نیٹو کی رکنیت سے بے خبر ہیں۔ وہ اب بھی خواب دیکھتے ہیں کہ 'بھائی' رجب طیب اردوان ان کے کپتان کے ساتھ مل کر امت کا وقار بحال کرنےکیلئےکمر بستہ ہیں ، اور اس جدوجہد میں روس بھی ان کے ساتھ ہے ۔ مقبول عام نعرے بازی کی کامیابی کی ایک وجہ قومی بیانیے میں تلاش کی جاسکتی ہے جو یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی سویلین اور فوجی حکومتوں کے ادوار میں کئی دہائیوں تک پاکستانیوں کے کانوں میں اتارا گیا۔ پاکستانیوں کو باور کیاگیا ہے کہ سیاسی بدعنوانی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، نہ کہ اسکی مایوس کن شرح خواندگی، ٹیکسوں کی ناکافی وصولی، اعلیٰ تعلیم کا پست معیار، زرعی اور صنعتی پیداواری صلاحیت، اور بیرونی امداد اور قرضوں پر انتہائی انحصار۔
قوم عموماً اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ نظریاتی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کیا ہے۔ اس کی نسبتاً عالمی تنہائی کی وجہ 'ڈالر خور'لیڈروں کی غلامی کو قبول کرنے پر آمادگی ہے، نہ کہ جہاد اور دہشت گردی کے حوالے سے ماضی کی غلط پالیسیاں۔ بے خبر عوام اکثر یہ یقین کرنےکیلئے تیار رہتے ہیں کہ صرف ایک سخت گیر اور صاف ستھرا آدمی آجائے جس کا کرشمہ اور روزانہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقاریر پاکستان کے تمام مسائل کو جادوئی طریقے سے حل کر دے گی۔پاکستان کو ایک نئے قومی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کی تاریخ اور صلاحیت کے حقیقت پسندانہ جائزےپر مبنی ہو۔ پرانا بیانیہ جس کا پرچار درسی نصاب اور میڈیا کے ذریعے برس ہا برس تک تواتر سے کیا گیا ، پر زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہے ۔ یہ طبقات شہروں میں رہتے ہیں اور موجودہ مقبولیت کے چیلنج کی حمایت کی بنیاد ہیں ۔ اس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکار، سرکاری ملازمین، اور پیشہ ور افراد شامل ہیں، جو زیادہ تر سرکاری رہائش گاہوں میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کو سرکاری سبسڈی والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ گفتگو پاکستان کو ’’اسلام کا قلعہ‘‘بنا کر پیش کرتی ہے ، لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتی کہ اس کا دراصل مطلب کیا ہے ۔خیال کیا جاتا ہے کہ قدرتی وسائل اور محنت کش عوام پاکستان کو ایک خوش حال ملک بنا سکتے تھے ، لیکن یہ صرف بدعنوان سیاستدانوں کی وجہ سے غریب اور مفلس ہے ۔ تنخواہ دار طبقہ تجارت، معاشی پالیسیوں یا کاروبارکی سمجھ نہیں رکھتا۔ یہ فوراً ایسی نعرہ بازی پر یقین کرلیتا ہے کہ ایک مرتبہ جب پاکستان سے لوٹے گئے اربوں ڈالر، جو سمندر پار اکائونٹس میں چھپائے گئے ہیں، واپس آگئے تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ جب اُن کا ہیرو ساڑھے تین سال حکومت کرتا رہا تو ایسی کوئی دولت بیرونی دنیا سے نہیں آئی ، لیکن یہ حقیقت بھی انھیں افسانوی خوش فہمی کی دنیا سے نہیں نکال سکتی ۔ قومی میڈیا کے بیانیے اکثر ایک اچھی کہانی کے عناصر سے مالا مال ہوتے ہیں ۔خیراس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہانی حقیقت سے اتنی دور ہو کہ یہ زمینی مسائل کیلئے بے محل بن جائے۔
پاکستان کے رہنمائوںنے ایک طویل عرصہ سے پاکستان کو عالمی سازشوں کا شکار بتایا ہے ،ا ور قوم بھی برسوں سے سازش کی تھیوریوں کو آسانی سے مانتی آئی ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان اس لیے کمزور ہیں کیوں کہ وہ نوآبادیاتی نظام کا شکار تھے،‘‘ نہ کہ یہ کہ وہ نوآبادیاتی نظام کا شکار اس لیے ہوئے کیوں کہ وہ عسکری اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔اس حقیقت پر کبھی بات نہیں ہوتی کہ توپ اور تلوار کے درمیان جنگ میں تلوار کی فتح کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔