• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری سرور سے متعلق افواہیں اور حقیقت

سکاٹ لینڈ کی ڈائری… طاہر انعام شیخ
چند ہفتے پیشتر سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نجی دورے پر گلاسگو تشریف لائے۔ اس سے تھوڑا عرصہ قبل بھی وہ انتہائی افسوسناک حالات میں اپنے اکلوتے بھائی چوہدری محمد رمضان جو دل کا دورہ پڑنے سے اچانک وفات پاگئے تھے۔ ان کی میت لے کر گلاسگو پہنچے، وہ اس صدمے سے انتہائی نڈھال اور اندر سے تقریباً ٹوٹ چکے تھے، پاکستان واپسی پر بھی وہ خاصے پریشان رہے اور پھر چند ہفتوں کے بعد دوبارہ پاکستان سے اپنے بھائی کا سامان اور کپڑے وغیرہ لے کر گلاسگو آئے۔ یہاں اپنی بوڑھی والدہ اور دیگر رشتہ داروں اور دوستوں سے مل کر ان کی خاصی ڈھارس بندھی، چوہدری سرور کے اس دورے پر مختلف حلقوں کی طرف سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور ان کو ایک بالکل مختلف رنگ میں لیا گیا ہے، یہ دعوے شروع ہوگئے کہ وہ ایک بار پھر دوبارہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ اس سلسلہ میں تمام تفصیلات طے کرلی گئی ہیں اور اب صرف اعلان باقی ہے، سیاسی لیڈر ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں اور چوہدری سرور کے تو خصوصی طور پر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے لیڈروں سے بڑے اچھے مراسم ہیں، وہ سیاسی اختلاف کے باوجود روایتی طور پر ایک دوسرے کا عزت و احترام کرتے، بھرم رکھتے اور دوستی، تعلقات کے قائل ہیں۔ اس بار اسکاٹ لینڈ آنے پر پاکستان میں اچانک پھیل جانے والی افواہوں سے سخت پریشان ہوئے، چوہدری محمد سرور کے ایک صاحبزادے انس سرور اسکاٹش لیبر پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ پہلے پاکستان نژاد ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے، اسکاٹش پارلیمنٹ میں کامیابی کی صورت میں ن کے مخلوط حکومت بانے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، یہ بات بھی پاکستانیوں کے لیے نہایت فخر کا باعث ہے کہ اس وقت اسکاٹ لینڈ میں حکومت کے سربراہ اور اسکاٹش لیبر پارٹی کے سربراہ دونوں پاکستان نژاد ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں ویسٹ منسٹر میں لیبر پارٹی کی حکومت بنانے میں اسکاٹش لیبر پارٹی کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے، اس بار بھی برطانیہ کی لیبر پارٹی کے لیڈر سر کیئر اسٹارمر کو اپنی حکومت بنانے کیلئےانس سرور کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور دونوں کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، جب انس سرور نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی تو اس وقت لیبر کی مقبولیت14فیصد اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کی49فیصد تھی لیکن اب انس سرور کی قیادت میں لیبر38فیصد جب کہ اسکاٹش نیشنل پارٹی32فیصد پر ہے اور ایسی صورت میں ویسٹ منسٹر میں لیبر کے ممبران کی تعداد موجودہ صرف ایک سے بڑھ کر30سے زیادہ ہونے کا امکان ہے، جس سے برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت کو زبردست استحکام ملے گا۔ اگر انس سرور خود بھی برٹش پارلیمنٹ کا الیکشن ٹو اسکاٹ لینڈ سے اتنے زیادہ ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ویسٹ منسٹر جائیں تو یقیناً ان کے نہ صرف سینئر وزیر بلکہ ڈپٹی پرائم منسٹر بننے کے بھی امکانا ہوسکتے ہیں، لیکن وہ اپنی توجہ صرف اسکاٹ لینڈ میں اپنی حکومت بنانے پر مرکوز کررہے ہیں، پاکستان میں بعض افراد نے یہ گمراہ کن افواہیں پھیلائی ہیں کہ چونکہ اسکاٹ لینڈ میں تحریک انصاف خاصی مقبول ہے۔ چنانچہ چوہدری سرور اسکاٹ لینڈ میں اپنے بیٹے کے حلقے میں ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا کرنے والوں کو شاید علم نہیں کہ انس سرور نے جب اسکاٹش لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تو پارٹی کی کشتی تقریباً روکنے کے قریب تھی اور اس کی مقبولیت اسکاٹ لینڈ کی تاریخ میں بدترین سطح پر تھی، کسی زمانے میں اسکاٹ لینڈ کو لیبر پارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ قلعہ تقریباً زمین بوس ہوچکا تھا، انس سرور کو یقیناً یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے نہ صرف لیبر پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی بلکہ اب یہ پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے کہ چوہدری سرور کے اسکاٹش لیبر پارٹی میں شمولیت سے مقامی سیاست اور اپنے حلقے کی سیٹ جیتنے میں انس سرور کو زبردست فائدہ پہنچے گا تو ایسے افراد کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ شاید اسکاٹ لینڈ میں الیکشن کے نظام سے نابلد ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں دو طرح کا انتخابی نظام ہے، پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد129 ہے، ان میں73براہ راست ووٹنگ کے تحت جب کہ56نشستیں متناسب نمائندگی کے ایڈیشنل ممبر نظام کے تحت چنی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں اسکاٹ لینڈ کو8علاقائی حلقوں میں تقیسم کیا گیا ہے اور ہر حلقے کی سات نشستیں ہیں، انس سرور فرسٹ پاسٹ دی یونٹ کے علاوہ متناسب نمائندگی کی لسٹ پر گلاسگو ریجن سے پہلے نمبر پر ہوتے ہیں اور یوں ان کی کامیابی100 فیصد یقینی ہوتی ہے۔ چوہدری سرور کے تحریک انصاف میں شامل ہونے یا نہ ہونے سے انس سرور کو نہ تو فائدہ پہنچا ہے اور نہ ہی نقصان۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ویسے بھی اسکاٹ لینڈ میں پاکستانیوں کی کل تعداد تقریباً50ہزار ہے، جہاں تک نئی نسل کے بچوں کا تعلق ہے، ان کو شاید ہی پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی مسلم لیگ، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے کوئی دلچسپی ہو، البتہ عمران خان کی شخصیت کو وہ ضرور پسند کرتے ہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپیاں مقامی سیاسی جماعتوں لیبر، کنزرویٹو، لبرل ڈیمو کریٹ یا اسکاٹش نیشنل پارٹی سے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہئے، مقامی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر ہم نہ صرف مقامی طور پر اپنی کمیونٹی بلکہ اپنے آبائی وطن پاکستان کی بھی زیادہ خدمت کرسکتے ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں زیادہ تر وہی افراد حصہ لیتے ہیں جو پاکستان سے آکر یہاں آباد ہوئے، ان میں یقیناً پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سرگرم ممبران شامل ہیں لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ان محدود سے چند جیالوں کی تعداد یہاں مقامی طور پر الیکشن کے نتائج کا پانسہ پلٹ سکتی ہے تو یہ صرف ایک خوش فہمی بلکہ غلط فہمی ہوگی۔ لندن کے میئر کے الیکشن میں عمران خان نے کھل کر زیک اسمتھ کی حمایت کی تھی لیکن عمران کی پاکستانی کمیونٹی میں تمام تر مقبولیت کے باوجود الیکشن کا نتیجہ تبدیل نہ ہوا، جہاں تک مشاہدے میں آیا ہے، پاکستانی سیاسی جماعتیں بیرون مک کمیونٹی کو زیادہ تر تقسیم کرنے کا یہی باعث بنی ہیں۔ برطانیہ میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت، سری لنکا یہاں تک کے ہمارے سابقہ حصے بنگلہ دیش کے بھی لاکھوں افراد رہتے ہیں لیکن یہاں آج تک کسی نے بھی کانگریس، بھارتی جنتا پارٹی یا کسی اور کی برانچ نہیں دیکھی اور وہ سب صرف اپنے اپنے ملک کے پرچم تلے یکجا ہوکر پروگرام کرتے ہیں، کیا ہم بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ 
یورپ سے سے مزید