• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ، اسرائیل جنگ، عالمی منظرنامہ

ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
تادم تحریر غزہ اسرائیل جنگ کو دو مہینے پورے ہو چکے ہیں 07اکتوبر کو یہ خونریزی شروع ہو ئی تھی دونوں اطراف کوئی 20 ہزار انسان موت کے منہ میں جا چکے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہیں غزہ کے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے۔ یہ جنگ اور کس قدر تباہی لائے گی اس کا تجزیہ انتہائی مشکل ہے خدشہ ہے کہ یہ عالمی جنگ نہ بن جائے۔ حالیہ عالمی منظر نامے اور ماضی قریب و آج کی عالمی طاقتوں پر ایک نگاہ کریں تو تجزئیے کے مطابق امریکہ ،سوویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940ء سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، تناؤ، اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے، اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثير اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ امریکا اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہیں تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کیلئے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔ سوویت روس کے سقوط سے پہلے یہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی اور امریکی و روسی علاقوں میں سرد جنگ جاری تھی اس زمانے میں خصوصی طور پر ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ، مصر کے فوجی آفیسر جمال عبدالناصر اور یوگوسلاویہ کے تا حیات صدر ماشل ٹیٹو نے ایک غیر جانب دار بلاک کی بنیاد رکھی تھی لیکن ہم جانتے ہیں ان تینوں عالمی رہنماؤں کا جھکاؤ بڑی حد تک روس کی طرف تھا اور امریکہ نے جو سیاسی کھیل کھیلے اور دفاعی منصوبہ بندی کے جو مظاہر پیش کیے، اس سے روس بحران کا شکار ہوتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر روس کے افغانستان میں غاصبانہ قبضے نے پوری کر دی۔ جب تراکی سے نجیب اللہ تک ان کی کٹھ پتلی حکومتیں بہت دیر تک ان کے قبضے کو بنائے رکھنے میں ناکام رہیں، اور اس طرح سوویت روس جو دنیا کی ایک بڑی طاقت تھی، افغانستان میں اس کے نواستعماری عزائم کی نہ صرف بھینٹ چڑھا بلکہ اس کا ایسا عبرت ناک زوال دیکھنے کو ملا کہ دنیا عش عش کر اُٹھی، پاکستان یقینا اس جنگ میں پیش پیش تھا۔ میخائل گورباچوف نے گرتی ہوئی معیشت، تیزی سے روبہ زوال سیاسی اثر اور کمزور پڑتی ہوئی سوویت روس کی گرفت کا احساس کر لیا اور پھر انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ بغیر کسی خون خرابے کے سوویت بلاک میں شامل ملکوں کو صحیح معنوں میں خودمختاری دے دی جائے اور سوویت روس میں شامل تمام ریاستوں کو بڑی حد تک آزاد کر دیا جائے۔ 1917 کے سوویت روس میں کمیونسٹ انقلاب نے جس طرح اس وقت دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اسی طرح 1991 میں جو اچانک اور غیر متوقع تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اس کیلئے بھی شاید دنیا پوری طرح تیار نہیں تھی۔ اس بیچ عالمی منظر نامے پر دنیا اب یک قطبی رہ گئی اور امریکہ جو اب تک روس سے برسرپیکار تھا وہ اب دنیا کا تن تنہا واحد رہنما بن چکا تھا لیکن اسی بیچ میں امریکہ کو 1979 میں ایک شدید جھٹکا اس وقت لگا جب اس کو ایران میں اس کے عزائم اور حلیف شہنشاہ کو امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے ہاتھوں ہزیمت اور شکست ہوئی اور شہنشاہ ایران کو اپنے ملک سے فرار ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ امریکہ نے ایران کو شکست دینے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوا۔ اس نے اپنے عرب حلیفوں کے ساتھ مل کر پہلے صدام حسین کو ایران کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور 8 سال تک عراقی اور ایرانی ایک ایسی جنگ لڑتے رہے جو خود ایک مسئلہ تھی، کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی تھی۔ امریکہ دنیا کی تاریخ ہی نہیں بدلنا چاہتا تھا بلکہ ایک نئے جغرافیہ کو بھی جنم دینا چاہتا تھا جس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح پہلے صدام، بعد میں قذافی، اس کے بعد بشار الاسد کو ٹارگٹ کیا گیا، ان میں سے اگر کوئی بچ پایا تو اتفاق سے وہ صرف بشار الاسد تھے۔ ادھر افغانستان میں بھی سوویت روس کی شکست کے بعد برسراقتدار آنے والے اعتدال پسند مذہبی رہنماؤں کو بہت دیر جمنے نہیں دیا گیا اور سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے طالبان کو افغانستان میں مسلط کر دیا گیا اور صبغت اللہ مجددی، برہان الدین ربانی، مولوی یونس خالص اور گلبدین حکمت یار وغیرہ کو بے دخل کر دیا گیا۔ جب ملا عمر کی قیادت والے طالبان سے بھی بہت دن امریکہ کی نہیں نبھی تو اس نے ایک بار پھر اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر طالبان کو بھی چلتا کیا اور پھر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی بظاہر سرپرستی کی لیکن ساتھ ہی طالبان سے اندر ہی اندر سلسلہ جنبانی بھی قائم رکھا اور افغانستان کو مستحکم نہ ہونے دینے، جدید اور ترقی پسند راستوں پر آگے گامزن نہ ہونے دینے کے لیے ایک بار پھر بظاہر دنیا کو یہ دکھاتے ہوئے کہ ہم طالبان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، انہیں کے سپرد ایک بار پھر افغانستان کو کر دیا۔ لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ روس کی طرح امریکہ جس طرح سے یک قطبی طاقت بن کر ساری دنیا کا چوہدری بنا ہوا تھا، اس کی وہ حیثیت اب خطرے میں ہے اور جس طرح روس نے پیوٹن کی قیادت میں یوکرین میں اپنے جارحانہ عزائم سے پورے یورپ کو ہلا رکھا ہے اور نہ صرف یوکرین بلکہ پورا یوروپ ہی ایک اعصابی بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف چین کا بڑھتا اثر و نفوذ امریکہ کیلئے ہی نہیں بلکہ اس کے حلیفوں کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یورپ میں امریکی اثر و رسوخ میں پڑنے والی دراڑوں کو فرانسیسی صدر کے اس بیان میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم امریکہ کے حلیف ہو سکتے ہیں ماتحت نہیں۔ پھر جس طرح انہوں نے روس کا دورہ کیا وہ خود امریکہ کے لیے چشم کشا ہے۔ ادھر امریکہ نے جس ملک کو اینٹی کمیونسٹ بلاک کے طور پر سوویت روس کے خلاف عالم اسلام کو بدظن کرنے کیلئے استعمال کیا تھا اور جس نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں کمیونزم اور سوویت روس کے خلاف ہراول دستے کا کام کیا، آج وہ بھی امریکہ سے دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے یعنی سعودی عرب جو نہ صرف چین سے اپنے اقتصادی تعلقات بہتر کر رہا ہے، ترقیاتی منصوبوں میں اشتراک کی بات کر رہا ہے، وہیں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے اشارے پر اور اس کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کا قریب آنا یقینی طور پر امریکہ کیلئے بہت زیادہ پریشانی کا موجب بن رہا ہے چونکہ اگر سعودی عرب اور ایران واقعتا ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی تو پھر عالم اسلام کیا ساری دنیا میں شیعہ سنی اتحاد ہر اعتبار سے ثمرآور ہو سکتا ہے، یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ ایران اور سعودی عرب او آئی سی میں شامل رہے ہیں، ایران اور سعودی عرب اگر ایک دوسرے کے سچ مچ قریب آ گئے، جیسا کہ امید کی جا رہی ہے تو پھر یمن، عراق، شام اور بحرین میں جو تنازعات مسلکی بنیادوں پر پریشانی کا باعث بنتے ہیں وہ خود آہستہ آہستہ غیرمؤثر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی اور ایران کے تعلقات دونوں ملکوں کے اقتصادی رشتوں کو بھی مضبوط کریں گے اور تیل سپلائی کرنے والے ملکوں کی حیثیت سے دونوں ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں اور ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ آپ اگر دھیان دیں تو ایک صدی پہلے سے لے کر اور بیسویں صدی کے نصف اول تک سعودی عرب برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ اس کے بعد وہ امریکہ کے خیمے میں شامل ہو گیا اور اب جبکہ ایک نئی نسل سعودی عرب میں پروان چڑھ رہی ہے، وہ اس کے سیاہ سفید کے فیصلے کر رہی ہے۔ جس کے سرخیل ولی عہد محمد بن سلمان ہیں تو اگر وہ چین کے ساتھ اپنے رشتے استوار کرتے ہیں اور اپنے قومی، معاشی اور علاقائی مفادات کو بنائے رکھنے کے لیے چین اور ایران کے ساتھ کیوں بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتے؟ ترکیہ گزشتہ بیس سال سے رجب طیب اردگان کی قیادت میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ وہ دفاعی ہتھیار سازی اور حکمت عملی وضع کرنے میں اپنی ایک پہچان بنا چکا ہے۔ آج روس اور یوکرین کے بیچ میں اگر کوئی ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ہے تو وہ ترکیہ ہی ہے۔ یورپی یونین کے ایک ممبر کی حیثیت سے وہ وہاں کاسہ لیسی کرنے والا ملک بن کر نہیں بلکہ پوری طاقت کے ساتھ ایک فیصلہ کن رول کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جیسے برونئی، ملیشیا، انڈونیشیا میں چین ایک دفعہ پھر اچھے حلیف کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے بعد اب چین ، بنگلہ دیش اور میانمار تکے بیچ بھی نئے رشتوں کے قیام کے لیے ایک کلیدی رول انجام دے سکتا ہے۔ سینٹرل ایشیا کے مسلم ممالک اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ممالک امریکہ کے اثرات سے باہر آنے کے لیے اس موقع کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید