• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈینگی‘‘ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے

ڈینگی بخار ایک ایسا وائرل انفیکشن ہے جو مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کی نصف آبادی ڈینگی کے خطرے سے دوچار ہے، اندازے کے مطابق ہر سال 100-400 ملین افراد ڈینگی سے متاثر ہوتے ہیں، گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 2000ء میں ڈبلیو ایچ او کو رپورٹ ہونے والے 430 سے 505 کیسز سے بڑھ کر 2019 ء میں 5.2 ملین ہوگئےتھے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق اب تک 3.9بلین افراد ڈینگی کے خطرات کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بیماری افریقا، امریکا، مشرقی بحیرہ روم، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایشیاء میں اس کی شرح 70فی صد ہے۔ ڈینگی یورپ سمیت دیگر علاقوں میں پھیل رہا ہے، 2010 میں پہلی بار فرانس اور کروشیا میں اس کے پھیلاؤ کی اطلاع ملی اور 3 دیگر یورپی ممالک میں کیسز کا پتہ چلا اور ابھی بھی ہر سال بڑی تعداد میں میں ڈینگی کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔

ڈینگی وائرس کیا ہے؟

ڈینگی وائرس مچھر کے کاٹنے سے لوگوں میں پھیلتا ہے ۔یہ ایک مہلک وائرل انفیکشن ہے، ڈینگی میں مبتلا زیادہ تر لوگوں میں علامات نمایاں نہیں ہوتیں، ڈینگی کو کیپیلری لیک سینڈروم (Capillary Leak Syndrome) کہا جاتا ہے، بخار کے چوتھے، پانچویں اور چھٹے دن نسوں کا پانی نسوں سے نکل کر جسم کے ٹشوز میں جمع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے خون کی شریانوں میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے اور بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے جسے ’’ڈینگی شاک سینڈروم‘‘ کہتے ہیں۔ 

اس کے نتیجے میں خون کی رسائی دل اور دماغ کو نہیں پہنچ پاتی اور ملٹی آرگن فیلیئر کا خدشہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں متاثرہ مریض کو فوری طور پر ڈرپس لگاکر پانی کی کمی پوری کی جاتی ہے اور بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈینگی ہیمریجک سینڈروم میں پلیٹی لیٹس(platelets) کم ہونے کی صورت میں جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے کا خطرہ ہوتا ہے، جلد پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں، دانتوں اور مسوڑوں سے خون آتا ہے اور یہی خون دماغ یا جسم کے دوسرے حصوں میں بہنے لگے تو زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں متاثرہ مریض کو فوری طور پر پلیٹی لیٹس لگائے جاتے ہیں۔

ڈینگی وائرس سیاہ اور سفید دھبے والا مادّہ مچھر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti) سے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد اگست سے دسمبر تک موجود رہتا ہے۔ ایڈیز ایجپٹائی مچھر 20 سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں پرورش پاتا ہے۔ یعنی شدید گرمی اور شدید سردی کے موسم میں یہ مچھر مر جاتا ہے۔

ایڈیز ایجپٹائی مچھر صاف لیکن ٹھہرے ہوئے پانی میں انڈے دیتا ہے جو لاروا کی شکل میں پرورش پاتا ہے۔ بارشوں کے بعد جمع شدہ پانی، بالٹیوں اور مختلف برتنوں میں ذخیرہ کیا گیا پانی یا گھروں کے اندر جمع ہونے والا صاف پانی مچھروں کے لاروا کی پرورش کے لیے موزوں جگہ ہوتے ہیں۔ وائرل انفیکشن کوئی بھی ہو اس میں بعض مریض 80 ہزار پلیٹی لیٹس پر بھی بلیڈ کرجاتے ہیں اور بعض مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی کم پلیٹی لیٹس پر بھی بلیڈ نہیں کرتے ہیں۔

ڈینگی وائرس ایک تو پلیٹی لیٹس کی تعداد میں کمی کرتا ہے ،دوسرا ان پلیٹی لیٹس کی کوالٹی بھی متاثر کرتا ہے، جس سے کم قوت مدافعت والے مریضوں میں خون جمانے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور ایسے میں اچھے خاصے پلیٹی لیٹس ہونے کے باوجود مریض کے جسم کے کسی بھی حصہ سے خون بہنا شروع ہوسکتا ہے۔

…… اسباب……

ڈینگی کوئی چھوت کی بیماری نہیں، یہ کسی متاثرہ فرد کے ساتھ رہنے سے منتقل نہیں ہوتا بلکہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے اور انسان کے مدافعتی نظام کو بری طرح متاثر کردیتا ہے، انسان کی جسم میں ڈینگی وائرس داخل ہوتے ہی خون جمانے والے خلیات کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے۔ خاص قسم کے مچھر ڈینگی وائرس پھیلاتے ہیں۔ 

متاثرہ شخص کو جب مچھر کاٹتا ہے تو یہ وائرس مچھر میں داخل ہو جاتا ہے، پھر جب متاثرہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹتا ہے، تو وائرس اس شخص کے خون میں داخل ہوتا ہے اور انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔

……علامات……

ڈینگی بخا ر میں مریض کے خون میں سفید خلیات(پلیٹی لیٹس) کم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بہت سے لوگوں کو ڈینگی انفیکشن کی کوئی علامت محسوس نہیں ہوتی۔ فلو اور تیز بخار کو عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے جب کہ عام طور پر اس کی علامات متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے 4 سے 10 دن بعد شروع ہوتی ہیں۔ 

اس مرض میں تیز بخار ،سر درد، جوڑوں میں درد، آنکھوں کے پیچھے درد، متلی، قے، کمر، جوڑوں اور پٹھوں میں درد، ڈینگی بخار کی اہم علامات ہیں۔ڈینگی تیز بخار کا سبب بنتا ہے،جس میں مریض کو 104ڈگری تک بخار ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ایک ہفتے یا اس کے اندر اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ کچھ معاملات میں علامات نمایاں نہیں ہوتے اور مریض ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتا تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوجاتا ہے، شدید ڈینگی کو’’ڈینگی ہیمرجک فیور یا ڈینگی شاک سنڈروم‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

شدید ڈینگی اس وقت ہوتا ہے جب خون کی شریانیں خراب ہو جائیں اور خون کی گردش نہ ہوپارہی ہو،خون جمانے والے خلیات یعنی پلیٹی لیٹس کی تعداد کم ہوگئی ہواور منہ سے خون آرہا ہو۔جب کہ ڈینگی کی شدید علامات بخار ختم ہونے سے پہلے یا دو دن بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ ہیمرجک فیور کی علامتوں میں نمایاں علامات درج ذیل ہیں۔

•٭…پیٹ میں شدید درد ٭…مسلسل قے آنا

• ٭…مسوڑھوں یا ناک سے خون بہنا ٭… الٹی میں خون آنا

•٭…سانس لینے میں دشواری٭…تھکاوٹ

٭…چڑچڑا پن یا بے چینی٭…جلد کا پیلا پڑنا ہونا

•٭…کمزوری محسوس کرنا

ان شدید علامات والے لوگوں کو فوراً دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ صحت یاب ہونے کے بعد ڈینگی کے مریض کئی ہفتوں تک تھکاوٹ محسوس کر تے ہیں۔

ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر

ڈینگی سے بچاؤ کے لیے ابھی کوئی ویکسین دستیاب نہیں، اس لئے ضروری ہے مچھر کش اسپرے کا استعمال کریں، چاہے گھر، دفتر سے باہر یا چار دیواری کے اندر ہوں۔ گھر سے نکلتے وقت پوری آستین والی قمیض اور پیروں میں جرابیں پہنیں۔ دروازے بند رکھیں، کھڑکیوں میں جالی لگاکر مچھروں کو گھر میں آنے سے روکیں، مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانی استعمال کریں، اپنے گھروں میں پانی جمع نہ ہونے دیں اور گملوں میں پانی ڈالتے وقت بھی کوشش کریں کہ پانی جمع نہ ہو، کیوں کہ یہی پانی مچھروں کی افزائش کا سبب بنتا ہے۔

ہسپتالوں میں ڈینگی کے بڑھتے مریضوں کے پیش نظر ڈینگی کے لیے مخصوص علیحدہ وارڈ ہونا چاہیے۔ اگر تین دن تک بخار نہ اترے تو ڈینگی اور ملیریا کے تشخیصی ٹیسٹ کروائے جائیں، بخار توڑنے کے لیے پیراسیٹامول کھائیں، سیلف میڈیکیشن سے گریز کریں اور مستند قریبی معالج سے رجوع کریں۔ ڈینگی سے متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کو شام کے اوقات میں باہر نہ نکلنے دیں ، حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ لانگ ٹرم پلاننگ کرے، انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کی ضرورت ہے ،تاکہ جب بارشیں ہوں تو پانی جمع نہ ہونے پائے اور پہلے سے ہی مچھر مار اسپرے کیا جائے۔

ڈینگی کے حوالے سے غلط فہمیاں

ہمارے یہاں ڈینگی کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اگر کسی کو ڈینگی ہوجائے تو کچھ نہیں کرنا صرف دو پیراسیٹامول لے لینا اور اور پپیتے کے پتے کا جوس پینا ہے۔ لوگ طبی ماہرین کے پاس جانے کے بجائے گھریلوں ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں ،اس طرح کے کچھ مشورے بعض لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیو کی شکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں ،مگر اس کے کیا مضمرات ہیں۔ 

اس کا اندازہ ڈاکٹرز ہی لگا سکتے ہیں، ان مشوروں پر عمل کر کے مریض جب ساتویں اور آٹھویں دن ہسپتال میں ہمارے پاس آتا ہے تو صورتحال یہ ہوتی ہے کہ مریض بے ہوش ہوتاہے، اس کے دماغ کی رگوں میں خون جما ہوتا ہے، بسا اوقات دماغ کی رگیں پھٹی ہوئی ہوتی ہیں، منہ سے خون آرہا ہوتا ہے، مریض کو اتنی تاخیر سے لایا جاتا ہے کہ اس کی حالت کافی خراب ہوچکی ہوتی ہے،حالانکہ بروقت تشخیص اور پلیٹی لیٹس لگا کر فوری طور پر اس کا علاج کیا جاسکتا تھا۔ 

کوئی بھی بخار اگر 24 گھنٹے کے اندر زیادہ تیز ہوگیا ہوتو فوری طور پر ڈاکٹر ز سےاپنا طبی معائنہ کرایا جائے اور ڈاکٹر ،سی بی سی،ملیریا،ڈینگی یا ٹائی فائیڈ کاجوبھی ٹیسٹ لکھ کر دے فوری طور پر وہ ٹیسٹ کرایا جائے، ٹیسٹ کے نتیجے میں ڈینگی یا ملیریا پازیٹو آئے اور ڈینگی تشخیص ہوتو وقتا ً فوقتاً سی بی سی کے ٹیسٹ کی ضرورت پیش آتی ہے اور اگر ملیریا تشخیص ہوتو چونکہ ملیریاکا بخار دماغ پر چڑھ جاتا ہے، اس لیے اس کے فوری علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔

یاد رکھیے ،ڈینگی کی روک تھام اور کنٹرول آپ کے احتیاط پر بھی منحصر ہے ،علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع اور مناسب دیکھ بھال کے ذریعے اس مرض کے خطرات سے بچا جاسکتا ہے۔

صحت سے مزید