خلیہ(Cell) انسانی وجود کی بنیادی اکائی ہے،کہا جاتاہے کہ انسان تقریباً 30ٹریلین خلیات سے مل کر بنا ہے،یہ خلیات ہی ہیں جو انسانی جسم کو تشکیل دیتے ہیں، خلیے بڑھتے ،گھٹتے اورتقسیم ہوتے ہیں ،پھر نئے خلیات جنم لیتے ہیں،کینسر کا آغاز بھی انہیں خلیوں میں خرابی کے آنےسے ہوتا ہے ۔کینسر اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کے کسی عضویا بافتوں(Tissues) میں جینیاتی تبدیلی رونما ہوتی ہے اورخلیات بے قابو ہو کرغیر معمولی طور پر بڑھنے لگتے ہیں۔
کینسر دنیا بھر میں موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کینسر کی وجہ سے ہر 6 میں سے ایک فرد موت کا شکار ہوتا ہے۔ کینسر ایک جان لیوا مرض ضرور ہے، مگر کینسر کے نشوونما سے قبل اگر بروقت اس کی تشخیص کر لی جائے تو مریض صحت یاب ہوکر نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
خون کا کینسرعام کینسرہی کی ایک قسم ہے جو خون کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے،یہ خون کے خلیوں کے اندر موجود ڈی این اے میں تبدیلیوں (میوٹیشن) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 4 لاکھ بچے کینسر کا شکار ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں سالانہ10 ہزار بچوں کو کینسر کی تشخیص ہوتی ہے،40 سے 50 فی صد بچے ہی علاج کے مراکز تک پہنچ پاتے ہیں اور50فی صد بچوں میں کینسر تشخیص ہی نہیں ہوپاتا۔بچے عام طور پر سب سے زیادہ بلڈ کینسر کا شکار ہوتے ہیں،جسے Acute Lymphocytic Leukemiaکہتے ہیں۔ہر 10 میں سے 6 بجے بلڈ کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔
کینسر کی قسمیں
بچوں میں خون کے کینسر کی کئی قسمیں ہیں لیکن عام طور پر(ALL) Acute Lymphocytic Leukemia اور(AML) Acute Myeloid Leukemia زیادہ عام ہیں۔لیوکیمیا خون کا کینسر کہلاتا ہے جب کہ لیمفوما غدود کا کینسر۔غدود کے کینسر کی اگر بروقت تشخیص کرلی جائے تو مریض کےٹھیک ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ Lymphocyte سفید خون کے وہ خلیے ہوتے ہیں جو انفیکشن سے بچنے اور بچانے کا کام کرتے ہیں اور بچوں اور بڑوں کو انفیکشن سے محفوظ رکھتے ہیں ،مگر خدانخواستہ اگر کسی بچے کے خون کےسیلز غیر معمولی طور پر زیادہ بننے لگیں اور جو بن رہے ہیں وہ بھی اپنی افادیت کے لحاظ سے نارمل نہیں ہیں تو اس کیفیت کو جس میں Lymphocyte بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور اپنی افادیت کے حساب سے بھی نارمل نہیں ہوتے اسے Acute Lymphocytic Leukemia کہا جاتا ہے،جس کی مزید تشخیص مخصوص قسم کے ایڈوانس ٹیسٹوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔
علامات
بچوں میں خون کے کینسر کی کئی علامات ہیں، اس مرض میں خون کے سرخ ذرّات میں کمی ہو تو بچے کی رنگت پیلی پڑنا شروع ہوجاتی ہے،بچہ سست ہو جاتا ہے پیٹ پھول جاتا ہے، سفید خون کم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی افادیت کم ہو جاتی ہے اور بار بار انفیکشنز ہونے لگتے ہیں اور زیادہ ایبنارمل سیلز بون میرو میں ہونے کی وجہ سے پلیٹیلیٹس بھی بننا کم ہو جاتے ہیں،جسم کے مختلف حصوں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔
چناں چہ اگر کسی بچے کے جسم سے خون آرہا ہو ،اس کا پیٹ پھول رہا ہو، اس کی سانس پھول رہی ہو،نمونیا بار بار ہو رہا ہو ،بخار ہو رہا ہو،بچہ ڈائریا کا شکار ہو اورخون کی کمی ہورہی ہو تو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے کہ کہیں بچے کو خون کا کینسر لیوکیمیا یا لمفوماتو نہیں، واضح رہے کہ لیو کیمیا کی طرح لمفوما بھی ایک ایسا کینسر ہے جو خون میں بہتا تو نہیں ہے، مگر جو غدود ہیں ان کو بڑا کر دیتا ہے اور یہ بھی بچوں میں پایا جاتا ہے۔
جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق میں پیش رفت ہورہی ہے ،اسی کے ساتھ ساتھ امراض کی تشخیص میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بیماریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں،دو طرح کے امراض مشاہدے میں آرہے ہیں ایک وہ جوجینیاتی طور پر ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے جیسے’’ تھیلے سیمیا‘‘ ، دوسری وہ جو ماں باپ سے جینیاتی طور پر منتقل تو نہیں ہوتی، مگر اس میں کسی حد تک جینٹک کا عمل دخل ہوتا ہے، تاہم بلڈ کینسر وہ بیماری ہے، جس کاسائنسی طور پر مورؤثیت سے کوئی مضبوط تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔
وجوہات
خون کے کینسر کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین ابھی تک اس کی اصل وجہ نہیں جان سکے، تاہم خون کے کینسرکی بنیادی وجہ خون کے سفید خلیوں کے جینز میں اتفاقی تغیرات کو سمجھا جاتا ہے، خون کے سفید خلیے دراصل ایک مدافعتی نظام ہے جو جسم کو بیماریوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
مدافعتی نظام میں خرابی،وائرس اور انفیکشنزبلڈ کینسر کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں،تاہم زیادہ تر کینسر میں کوئی نہ کوئی خاص جینٹکس کی نشاندہی کی گئی ہے اور زیادہ تر سائنسی تحقیق اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ مخصوص ماحولیاتی آلودگی کی موجودگی میں یعنی اگر کوئی بہت ہائی الیکٹریسٹی یاہائی پاور کے تاروں کے پاس رہتا ہے یا کوئی ایٹامک پلانٹ کے پاس رہتا ہے یا کوئی ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں بمباری کی گئی ہو اور اسلحہ بارود کا استعمال کیا گیا ہو تو ایسی جگہوں پر رہنے والوں میں کینسر کا مشاہدہ کیا گیا ہے، یہ تو ماحولیاتی مسائل ہیں۔
اس کے علاوہ ایسے جراثیم ،وائرسز اور بیکٹیریاز بھی معلوم کیے گئے ہیں کہ جن کا تعلق بھی کینسر کے ساتھ دیکھا گیا ہے، جن علاقوں میں آلودہ پانی اور گندی کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں وہاں بھی کینسر کے امکانات بڑھتے ہیں۔علاوہ ازیں پودوں، سبزیوں اور پھلوں میں جراثیم کشن ادویات (pesticide) چھڑکی جاتی ہیں، اگر یہ بھی زیادہ مقدار میں ہو تو ان سے بھی کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ مچھلی کے فارمز میں ایسی چیزیں استعمال ہو رہی ہیں جو کہ محفوظ نہیں ہیں ، سبزیوں میں ایسے ایسے کیمیکلز استعمال ہو رہے ہیں کہ جو کہ صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر نیچرل طریقے سے سبزیاں ،پھل اور جانوروں کے فارم ہاؤسز کواستوار کیا جائے تو کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔ یعنی صحت مند ماحول اورآلودگی سے صاف ماحول کینسر سے بچنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
علاج
کیموتھراپی بلڈ کینسر کا طریقہ علاج ہے اور اس کے ذریعےکینسرکا کام یاب علاج ممکن ہو رہا ہے ۔ 10 سے 20 فی صدوہ مریض جن میں کیموتھراپی نہیں کام کر پاتی ، ایسے مریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پاکستان میں متعدد ایسے ادارے ہیں جہاں کامیابی کے ساتھ بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا جارہا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مریض شفایاب ہو جاتے ہیں ،تاہم زیادہ تر مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کی نوبت نہیں آتی اوروہ صرف کیمو تھراپی ہی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ محض 20 سے 25 فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو کیموتھراپی کے بعد بون میرو ٹرانسپلانٹ کی بھی ضرورت پڑتی ہے جب کہ دیگر کینسرز میں ٹرانسپلانٹ کا کوئی خاص رول نہیں ہے۔ ان کو کیموتھراپی سے ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
کینسر کے علاج کے دوران خاص طور پر بلڈ کینسر کے علاج کے دوران خون کی شدید ضرورت پڑتی ہے، اس وقت خون کا انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے چنانچہ یہ بہت ضروری ہے کہ مریض کے رشتہ دار، دوست، احباب تازہ خون کا بندوبست رکھیں۔ کینسر کے وہ بچے جن کا علاج کیاگیا وہ اب خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں جو پریشانی پیش آرہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف جنہوں نے کینسر ٹریٹمنٹ کے حوالے سے ٹریننگ لی ہے وہ پاکستان میں قیام کریں ، یہ بات بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ بے شمار ایسے ڈاکٹرز جنہوں نے اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ حاصل کی وہ بیرون ِملک چلے گئے اور ہمارےمریض ان کی صلاحیتوں سے مستفید نہ ہو پائے ۔چنا ںچہ ہمیں ملک میں ایسے پرعزم ڈاکٹرز ،نرسز ،پیرامیڈیکل اسٹاف کی ضرورت ہے جو پاکستان میں رہ کرکینسر کے مریضوں کاعلاج کرسکیں۔
پاکستان میں بچوں میں کینسر کے علاج کے ادارے جیسے چلڈرن ہسپتال، شوکت خانم، آغا خان ،جناح ہسپتال،انڈس ہسپتال، این جی اوز اور ہر سطح پر اتنے ادارے موجود ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کینسر قابلِ علاج تو ہوا ہے، مگر اس پرایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے ،اس لیے ہم اپیل کرتے ہیں کہ نہ صرف این جی اوز بلکہ سرکاری سطح پر بھی جہاں بھی مریض ہوں ،ان کی مدد کی جائے اور ان کے بیماری کو شفایاب کرنے میں ان کا ساتھ دیاجائے۔
یہاں پر یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ شروع کے دنوں میں علاج کے دوران یا بعد میں جو خوف اور سائیکولوجیکل ایموشنل ڈسٹرکشن مریض اور اس کے خاندان میں آجاتی ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔اس حوالے سے ایموشنل اور سائیکالوجیکل تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کینسر کےحوالے سے غلط فہمیاں
دیگر امراض کی طرح کینسر کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جن میں سے ایک یہ کہ کینسر میں کیموتھراپی کے ری ایکشنز اور سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں، یہ بات کسی حد تک درست ہے، متعدد ایسے امراض ہیں جن کے علاج کے طریقوں میں سائیڈ ایفکٹس ہوتے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بیماری سے موت کے منہ میں چلے جانے سے بہتر ہے کہ علاج کے سائیڈ ایفکٹس کو قبول کرلیا جائے ،تاکہ عملاً علاج ممکن ہو سکے، یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ کینسر کا علاج کیا ہے ،کینسر کے علاج میں عام طور پر مخصوص قسم کی دوائیاں جن کو کیموتھراپی کہا جاتا ہے ان سے کیا جاتا ہے اور گزشتہ 30 سال میں اس شعبے نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔
خاص طور پرآخری 15 سال میں بہت بڑی تعداد میں ایسی دوائیاں نہ صرف ایجاد ہوئی ہیں بلکہ استعمال ہوئی ہیں کہ جن سے بچوں میں کینسر 75 فی صد تک ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی مختلف قسم کے بلڈ کینسر میں مبتلا بچے 70 سے 80 فی صد تک ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کینسر قابل علاج ہے،آج سے تیس سال قبل یہ کہا جاتا تھا کہ کینسر ناقابلِ علاج بیماری ہے، مگر اب وہ وقت نہیں رہا۔ آج بر وقت تشخیص سے کینسر سے جان بچائی جا سکتی ہے۔
ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ لوگ بائی آپسی (Biopsy) نہیں کراتے کہ ایک بار اگر آپ بائی آپسی کرالیں تو کینسرمزید پھیل جائے گا، یہ حقیقت کے بالکل برخلاف ہے، یہ بالکل غلط فہمی ہے، جب ڈاکٹر آپ سے بائی آپسی کرانے کا کہے تو جلد از جلد بائی آپسی کرائیں، کیوںکہ بے شمار بار یہ دیکھا گیا ہے۔
اسٹیج ون کے ڈیزیز کو ہم خود اسٹیج فور تک لے جاتے ہیں یعنی اسٹیج ون کے ڈیزیز جس میں 80 فی صد مریض شفایاب ہو سکتے ہیں ،مگر بائی آپسی کے ڈر سے تاخیر کر کے ہم اسٹیج ون کو اسٹیج فور پر لے جاتے ہیں ، جس میں 30 سے 40 فی صد مریضوں کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔ کینسر چھوت کی بیماری نہیں ہے ،کینسر کے بچے کے ساتھ رہنے والے کھانے پینے والے اس کے بھائی، بہنوں اور رشتہ داروں کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور وہ بالکل محفوظ ہوتے ہیں۔