’’ڈرٹی وار‘‘ نامور صحافی ومحقق سلیم صافی کی تصنیف کا نام ہے، جہاں یہ نام ایک جنگ کی آلائشوں کی جانب توجہ دلاتا ہے، وہاں حقیقت بھی یہ ہے کہ ہر جنگ ناپسندیدہ اور پراگندہ خیالات کا عکس ہوتی ہے۔ افغان جنگ اول تا آخرفکری ژولیدگی لئے ہوئے تھی، مصنف کا کہنا ہے کہ اسکے مبنی بر نجاست اثرات اب بھی خطے و معاشرے کو آلودہ رکھے ہوئے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی میں جب اس کتاب کی رونمائی ہو رہی تھی تو یہ بندہ علالت کے سبب نقاہت وناتوانی کے زیراثر ہونے کی وجہ سے بے خبر رہا، خوش قسمتی مگر یوں رہی کہ برادر سلیم صافی کا کالم نظر سے گزرا، اس سے کچھ جانکاری ہوئی، اس میں کہا گیا ہے کہ ”پختون بیلٹ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے لیبارٹری کی صورت اختیار کر گئی ہے، یوں تو اس لیبارٹری میں ان منحوس تجربات کا یہ سلسلہ گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے لیکن میری کتاب میں صرف بیس سال یعنی 2001ء سے 2023ء تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جہاندیدہ و چشم دیدہ سلیم صافی کہتے ہیں۔ ’مجھے اس حوالے سے دیگر ملکی صحافیوں کی نسبت یہ سبقت حاصل رہی کہ میں ان بے چہرہ جنگوں کا حصہ بھی رہا، اسکے متاثرین میں بھی شامل اور بطور صحافی مشاہدہ اور تجزیہ کرنیوالا بھی رہا‘۔ اگرچہ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ ’میری کتاب میں آخری 20سال کی روداد ہے۔‘ تاہم جب وہ کہتے ہیں کہ منحوس تجربات کا سلسلہ گزشتہ 40سال سے جاری ہے، تو گویا انہوں نے 40برس کا نوحہ لکھا ہے۔ بنابریں ہمیں یہاں سلیم صافی صاحب کی اس رائے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی جنگوں اور تجربات کیلئے اس خطے کو میدان بنایا اور ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی، کی تائید کرتے ہوئے صر ف اتنا کہنا ہے کہ انقلابیوں کے خلق وپرچم دھڑوں کے مابین کشت وخون نے اُن نام نہاد مجاہدین کو جواز و موقع فراہم کیا، جو افغانوں کی تباہی اور امریکہ کیلئے تو یک جان تھے لیکن باہم دست و گریبان، انہیں ایک دستر خوان پر بٹھانے کیلئے پے درپے میثاق پشاور، میثاق اسلام آباد کروائے گئے، جو ثمر باور نہ ہو سکے تو پھر ان سے خانہ کعبہ میں قرآن پر حلف لیا گیا۔ یہ انوکھا جہاد تھا جس میں تختِ کابل کے حصول کیلئےنام نہاد مجاہدِ کبیر گلبدین اور برہان الدین ربانی کے گروپوں میں معرکے کے دوران کابل پر ہونیوالی بمباری سے50ہزار شہری شہید ہو گئے تھے۔ یہ جنگجو امریکی چہیتے تو تھے لیکن پاکستان کو زک پہنچانے کیلئے بھی راستے تلاش کرتے تھے اسی حوالے سے بریگیڈئر یوسف اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں ’جب گلبدین حکمت یار امریکہ گئے تو اُس نے کچھ شرائط رکھیں، جس پر جنرل ضیا نے گلبدین کو تنبیہ کی کہ وہ اپنی اوقات میں رہے‘۔ اس جنگ میں مہرے اس خوبی سے بروئے کار آئے کہ قوم پرست بھی سمجھ نہ پائے، قوم پرست جنہیں بابا کہتے ہیں، اُس بابا اشرف غنی نے بطور صدر افغانستان، حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملکر 2017ء میں افغانستان واپسی پر اُس گلبدین کا ریڈ کارپیٹ استقبال کیا، پاکستانی قوم پرست جنہیں افغانستان کی تباہی کا ذمہ ٹھہراتے ہیں!!
جناب خواجہ محمد آصف ماضی میں بطور وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ’یہ لوگ (نام نہاد مجاہدین) وہائٹ ہائوس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے‘۔ اس دوران نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب میں انہوں نےکہا ’ 80کی دہائی میں امریکہ کا آلۂ کار بننا ایک ایسی غلطی تھی جس کا خمیازہ پاکستان اب تک بھگت رہا ہے، امریکہ کے سوویت یونین کیخلاف جنگ جیتنے کے بعد سے ہم جہنم میں چلے گئے اور آج تک اسی جہنم میں جل رہے ہیں‘۔ بریگیڈیر یوسف اعتراف کرتے ہیں۔ ’امریکی آفیشلز افغان جنگ کو ایک ایسا خدائی تحفہ سمجھتے تھے جس کےذریعے وہ افغانستان میں کسی امریکی کا خون گرائے بغیر روسیوں کو قتل اور ان سے ویت نام کی شکست کا بدلہ لے سکتے تھے۔‘ آپ جانتے ہیں کہ بریگیڈیر یوسف نے ’The Silent Soldier‘ اور ’ The Bear Traip ‘ لکھی تھی۔ وہ ایک عرصہ پاکستانی ایجنسی کے افغان ڈیسک کے سربراہ رہے، ان دونوں کتابوں میں انہوں نے بعض تلخ حقائق بیان کئے ہیں۔ بریگیڈیر یوسف اپنی کتاب میں کہتے ہیں، اپنے اور غیروں کے مکرو فریب پر مبنی افغانستان اور اس خطے کی تباہی و بربادی کی المناک داستان بہت طویل ہے ۔ ’’برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب’ Waiting for Allah ‘ میں لکھتی ہیں ’مجھے خود جنرل فضل الحق نے بتایا، ہم نے امریکہ سے کہا، ہم نے آپ کو مچھلی پکڑنے کیلئے Worm (ایک کیڑا) دیا ہے جسے آپ بروئے کار لا سکتے ہیں لیکن اس کیڑے گلبدین حکمت یار پر بھروسہ نہیں کر سکتے‘۔ افغانوں کی بپتاغم والم سے بھر پو ر ہے، سلیم صافی صاحب کو اس کاوش پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ڈرٹی وار کے اہم گواہ بریگیڈیر یوسف کے اس اعتراف پرکالم کوختم کرتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ افغان جنگ کا فاتح صرف اور صرف امریکہ ہے اور شکست یقینی طور پر تباہ حال افغانوں کو ہوئی‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)