انتخابات جمہوریت کا لازمی حصہ ہیں ۔ لیکن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تو صرف ایک عامل ہے جو کسی ملک کو لبرل جمہوریت بناتا ہے ۔ میگزین، ’’فارن افیئرز‘‘ میں 1997 ء میں شائع ہونے والے مضمون میں بھارتی نژاد امریکی صحافی فرید ذکریا نے نوٹ کیا کہ دنیا بھر میں لبرل جمہوریت کو فروغ تو مل رہا ہے لیکن، وہ لکھتے ہیں ـ: ’’ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی حکومتیں اپنے اقتدار کو حاصل آئینی حدود کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے شہریوں کو انکے بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم کررہی ہیں۔ ‘‘
فرید ذکریا کے مطابق مغرب میں ، جہاں سے جمہوری ریاستیں ارتقا پذیر ہوئیں ، ’’جمہوریت سے مراد لبرل جمہوریت ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں نہ صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ، اختیارات کی علیحدگی اور بنیادی آزادیوں (اظہار، اجتماع، مذہب اور جائیداد) کابھی تحفظ کیا جاتاہے ۔ ‘‘ لیکن ہنگری سے لے کر وینزویلا تک دنیا کے بہت سے ممالک میں منتخب رہنمائوںنے آئینی حدود کو پامال کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور منتخب آمریتوں کی شکل اختیار کرلی ۔
ذکریا نے امریکی سفارت کار، آنجہانی رچرڈ ہالبروک کی تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ستمبر 1996 ء میں بوسنیا میں ہونیوالے انتخابات اس جنگ زدہ ملک میں پرامن شہری زندگی کی بحالی کا سبب بن سکتے تھے ۔ خیال کیا جارہا تھاکہ وہ آزادانہ اور منصفانہ ہونگے لیکن ان انتخابات نے نسل پرستوں، فسطائی اور علیحدگی پسندی کی سوچ رکھنے والوں کو تقویت دی،اور یہ دھڑے امن اور ہم آہنگی کے خلاف ہوتے ہیں ۔ ‘‘ سابق یوگوسلاویہ میں جاری کشمکش اور عدم استحکام کے دنوں میں یہی مخمصہ لاحق تھا۔ آنیوالے انتخابات کے حوالے سے پاکستانیوں کویہ معروضات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان جمہوری عمل کیلئے درکار انتخابات کاکوئی بہت اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتا۔ 1947ء میں اپنے قیام کے تیئس سال بعد تک ملک میں کوئی عام انتخابات نہ ہوئے۔ جب 1970ءمیں فوجی حکومت کے دور میں انتخابات کا انعقاد ہواتو ان کے نتائج پاکستان کے دونوں بازوئوں کے درمیان کشمکش ، ٹکرائو ، تنازع اور خانہ جنگی کا باعث بن گئے،اور یوں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا ۔ باقی ماندہ نصف ملک، موجودہ پاکستان ، میں 1977ء میں انتخابات ہوئے ، لیکن ہارنے والے اپوزیشن الائنس نے نتائج پر تنازع کھڑا کردیا ۔ اس سے پہلے کہ سیاست دان تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرتے ، ملک ایک بار پھر مارشل لا کی گرفت میں تھا۔ اسکے بعد 1985ء تک انتخابات کی نوبت نہ آسکی ۔ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونیوالے اُن انتخابات کا ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والی نیم منتخب شدہ حکومت کو بھی آخر کار چلتا کردیا گیا ۔ ضیاالحق 1988 ء میں طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوگئے تو ملک میں ایک بار پھر انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ سیاسی کشمکش جاری رہی ، 1990میں دوبارہ انتخابات کی سیج سجائی گئی ،لیکن وہ بھی غیر متنازع نہیں تھے ۔ 1993ء اور 1997ء کے انتخابی نتائج بھی ہارنے والوں نے مسترد کردیے ۔ 2002 ء کے انتخابات کو صرف جزوی طور پر جائز تصور کیا گیا کیوں کہ وہ اس حکومت نے کروائے تھے جس نے شب خون مارتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا تھا۔ 2008ء، 2013ءاور 2018 کے انتخابات کے نتائج بھی تنازعات سے پاک نہیں تھے۔پاکستان کے ناہموار جمہوری ریکارڈ کا ایک طائرانہ جائزہ بتاتا ہے کہ اگرچہ ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتی ہے ، لیکن شاید ہی کوئی طے شدہ اصولوں کی پیروی کرنےکیلئے تیار ہو۔ عدلیہ کی ساکھ بھی داغدار ہے ۔ صرف یہی نہیں، ملک کی نادیدہ اتھارٹیز کی مداخلت کئی برسوں سے ، خاص طور پر حالیہ مہینوں کے دوران گرما گرم بحث کا موضوع رہی ہے ۔ واضح نظر آتا ہے کہ پاکستان کے کچھ سیاسی کھلاڑیوں میں جمہوری طرزعمل کا شدید فقدان ہے ۔انتخابات میں فتح مند کو حکومت سازی کرنے اور ہارنے کی صورت میں اگلے انتخابات تک اپوزیشن کی صفوں سے حکومت پر تنقید کا کردار ادا کرنے کی بجائےکسی ایک یا دیگر انتخابی نتائج کو متنازع بنا دیا جاتا ہے ۔ اس سے چالبازی اور دائو پیچ کا پس پردہ کھیل شروع ہوجاتا ہے ۔ اکثر اس کے ساتھ میڈیا پر پابندی لگادی جاتی ہے اور سیاسی حریفوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو سیاسی سرگرمی کا مرکز خیال کیا جاتا ہے ، لیکن پلڈاٹ اور فافین کے ریکارڈ کے مطابق زیادہ تر نامی گرامی پاکستانی سیاستدان قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں افسوس ناک حد تک کم حاضری رکھتے ہیں ۔ بطور وزیر اعظم، عمران خان نے اپنی تین سال اور آٹھ ماہ کی مدت کے دوران قومی اسمبلی کے 442 اجلاسوں میں سے صرف 38میں شرکت کی ۔ گویا اُنکی حاضری کا تناسب 9 فیصد رہا ۔ جب وہ یکم جون 2013 ء سے لیکر تیس مئی 2016 ءتک حزب اختلاف میں تھے تو ان کی حاضری کی شرح اس سے بھی کم تھی، یعنی صرف پانچ فیصد ۔ قومی اسمبلی میں نوا ز شریف کی حاضری نسبتاً بہتر رہی ہے ۔ انھوں نے 289میں سے 39 اجلاسوں (13.4 فیصد ) میں شرکت کی ۔ گزشتہ چند برسوں سے قانون سازوںکی اسمبلی میں حاضری کی شرح میں کمی کا رجحان جاری ہے۔
اراکین پارلیمنٹ کو منتخب کیا جاتا ہے اور وہ اجلاسوں میں اپنے ووٹروں کی نمائندگی کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ وہ اجلاس کھلی بحث اور مباحثے کے فورمز ہوتے ہیں ۔ ان میں حصہ لینے کی بجائے زیادہ تر اراکین اسمبلی انتخابات کو ایگزیکٹو پر کچھ اختیار حاصل کرنے اور اس کے بدلے حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ خیال کرتے ہیں ۔ جس دوران ممبران اسمبلیوں میں کم دلچسپی ظاہر کررہے ہیں ، منتخب حکومتوں کا انحصار آرڈیننس کے اجرا پر بڑھ گیا ہے ۔ یہ صورت حال پارلیمنٹ کے منتخب ہونے کا جواز کمزور بنا دیتی ہے۔
جمہوریت کیلئے انتخابات ناگزیر ہیں ، اور عام طور پر وہ اس سوال کو حل کردیتے ہیں کہ ملک پر حکومت کسے کرنی ہے ؟ پارلیمنٹ کی مدت کے دوران اس سوال کا جواب مل چکا ہوتا ہے ۔ لیکن اگر انتخابی نتائج کو مسلسل متنازع بنایا جاتا رہے، اور منتخب اراکین پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے پس پردہ ساز باز میں مصروف رہیں تو جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی۔ صرف اور صرف انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کے خواہاں طبقات کو سیاسی اصولوں کا دامن تھامنے پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ جب تک تمام ادارے، سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا اورعدلیہ اور اس وقت سب سے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ، مل کر آئینی حدود کا احترام نہیں کرتے، پاکستان میں اگلے انتخابات کے بعد بھی موجودہ سرکس ختم نہیں ہوگا۔