آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی ختم کر دی، سپریم کورٹ نے چھ ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ضروری تھا کہ یہ فیصلہ فوری سنایا جاتا، تمام وکلاء اور اٹارنی جنرل کے آنے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے خاتمے کا فیصلہ 6-1 کے تناسب سے سنایا، نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم ہوگئی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، 2018 کا سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 62 ون ایف کی تشریح عدالتی ڈیکلریشن کےذریعے آئین کو ریڈ ان کرنا ہے، ڈیکلریشن دینے کے حوالے سے قانون کا کوئی پراسیس موجود نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلے سے اختلاف
جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات بھی نہیں ہے، نااہلی عدالتی فیصلہ موجود ہونے تک ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال تک ہے، نااہلی کی مدت کے قانون کو جانچنے کی ضرورت نہیں، سمیع اللّٰہ بلوچ فیصلہ درست تھا۔
تاحیات نااہلی کیس کا تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا، تحریری فیصلہ 7 صفحات پر مشتمل ہے، جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لاء کیا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلریشن کس نے دینی ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا، یہ بھی واضح نہیں کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی فیئر ٹرائل اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی آرٹیکل کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا تصور بنیادی حقوق کی شقوں سے ہم آہنگ نہیں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی انتخابات لڑنے اور عوام کے ووٹ کے حق سے متصادم ہے، جب تک آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق قانون سازی نہیں ہو جاتی اسے آرٹیکل 62 ون ڈی، ای ،جی کی طرح ہی پڑھا جائے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کا فیصلہ مسترد کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شق 2 شامل کرکے نااہلی کی مدت 5 سال کی گئی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے چھ ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا مختصر اختلافی نوٹ بھی تحریری فیصلے کا حصہ ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 5 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
5 جنوری کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگا دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے، ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟
دوان سماعت مزید چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟