سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
محفوظ کیے گئے فیصلے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج تو نہیں مگر جلد ہی مختصر فیصلہ سنائیں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
’’انتخابات پر انفرادی کیس نہیں، آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے‘‘
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگا دیں گے۔
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاحیات ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو اور وہ ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف انتخابات سے پہلے لگ سکتا ہے یا بعد میں بھی لگ سکتا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر دیکھیں تو انتخابات سے پہلے ہی نااہلی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے، ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کسی اور ملک میں سیاستدانوں کے لیے ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہمارے سیاستدان پوری دنیا کے سیاستدانوں سے الگ ہیں؟ کاغذاتِ نامزدگی میں ذاتی معلومات دیں اور انتخابات کے لیے اہل ہو جائیں، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں معاشرے کے قرض کا ذکر مضحکہ خیز ہے، قتل پر لواحقین سے صلح پر معاملہ ختم ہو جائے تو معاشرے کا قرض کہاں جاتا ہے؟ کاغذاتِ نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا؟ کاغذاتِ نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ اگر سونا رکھنے سے متعلق درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے، الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلاء کے لیے نہیں عوام کے لیے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے، فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون صادق اور امین ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لارجربینچ بنایا تاکہ سوالات کا جواب ملے لیکن معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتظار کر لیتے ہیں، کیا پتہ سوالات کے جوابات اس سے بڑے بینچ سے آ جائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے؟ مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں؟ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنے اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے، عدالت کسی کو بد دیانت قرار دے لیکن معاشرہ اسے ایماندار سمجھتا ہو تو فیصلے کا کیا ہو گا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا عدالت الیکشن ایکٹ سیکشن 232 کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیکشن 232 عدالت کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، اس کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، عدالت خود کو صرف سمیع اللّٰہ بلوچ فیصلے تک محدود رکھے، الیکشن ایکٹ ترمیم پر فیصلے کے لیے اس کے خلاف درخواست آنا ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ عدالت نے اپنا ہی فیصلہ دیکھنا ہے تو کیا 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کوئی کاغذات میں جھوٹ بولے تو کیا آر او مواد دیکھ کر ڈیکلیئریشن دے سکتا ہے؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بالکل نہیں، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں جو ڈیکلیئریشن جاری کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پھر سوال کیا کہ کیا ہائی کورٹ ڈیکلیئریشن جاری کر سکتی ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت 5 سال کر دی، بہتر نہ ہوتا کہ واضح لکھا جاتا کہ ڈیکلیئریشن کے تحت 62 ون ایف میں نااہلی 5 سال ہو گی؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپ کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، آپ اپیل سن رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ فیصل واؤڈا کیس میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ اس کیس میں ڈیکلیئریشن نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی پھر تو یہ اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہو گی؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے کہ نااہلی 5 سال ہو گی، کیا سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو بے اثر کر دیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللّٰہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریے کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یا کوئی مثال ہے نااہل اور سزا یافتہ شخص کولنگ پیریڈ کے بعد انتخابات لڑنے آ جائے؟
جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ کیا عدالت قرار دے سکتی ہے، الیکشن ایکٹ سیکشن 232 آنے سے تاحیات نااہلی کا فیصلہ خود بے اثر ہو گیا؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد وبدل ممکن ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سوال کا جواب ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے میں دے چکے، قانون سازی سے آئین میں رد وبدل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات جمع کرا دیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے 5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو نمازِ جمعہ کے بعد سنیں گے۔
اس کے ساتھ ہی سماعت میں نمازِ جمعہ کے بعد تک کا وقفہ کر دیا گیا۔
آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے 2015ء کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیا اورکہا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں کورٹ آف لاء کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں اسحاق خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس ڈسکس نہیں ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اصل میں خاکوانی کیس کیا تھا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2015ء کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے ہی متعلق تھا، کورٹ آف لاء کیا ہو گی 2015ء میں 7 رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لاء کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا کہ یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار میں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی ہے، سپریم کورٹ تعین کرے کہ سیاستدانوں کی اہلیت کی ڈیکلیئریشن کس نے دینی ہے۔
جسٹس امین نے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے سوالات کا فیصلہ ہم کریں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈیکلیئریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے۔
’’5 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیاکہ اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بینچ کا فیصلہ 5 رکنی بینچ نے کیوں نہ دیکھا؟ سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں 5 رکنی بینچ نے پہلے کا فیصلہ نظر انداز کیا،5 رکنی بینچ نے پہلے کا فیصلہ نظر انداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا، ہم سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں ہی پھنس گئے، خاکوانی کیس پر کیوں نہیں گئے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ اسحاق خاکوانی کیس پر جانا پڑے گا، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے۔
’’آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سپریم کورٹ نے خود سے کیسے کر دی؟‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ خود کہتی ہے کہ 62 ون ایف کی تشریح کریں تو پھر کیس سنا جا سکتا تھا، آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سپریم کورٹ نے خود سے کیسے کر دی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں امیدوار کا متقی و پرہیزگار ہونے کا بل دو بار مسترد ہوا تھا۔
’’ہم سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں پھنس گئے، اسحاق خاکوانی کیس کسی نے نہیں دیکھا‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ ہم سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں پھنس گئے، اسحاق خاکوانی کیس کسی نے نہیں دیکھا، ہم خاکوانی کیس کی طرف کیوں نہ جائیں؟ صرف سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں، میں اگر آئین میں رد و بدل کر دوں اور نئی چیزیں شامل کر دوں، کل کو میں کہوں کہ پارلیمنٹیرینز کو ذہین ہونا چاہیے تو اس کا تعین کون کرے گا؟ کوئی بھی عدالت ارکانِ اسمبلی کی ذہانت کا ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتی، جب اسحاق خاکوانی کیس میں اہم سوالات سامنے آئے تو ان کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس نے سیاستدانوں کو حاصل شیلڈ چھین لی، آرٹیکل 62 ون ایف میں ترامیم آئین سے 1985ء میں ہوئے تشدد کے نتیجے میں ہوئیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 5 سال کی مدت طے کر دی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے، نااہلی کی ڈیکلیئریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ منصور صاحب کو اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لے گی، عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتی ہیں، عدالتیں صرف یہ جائزہ لے سکتی ہیں کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں، ناصرف انتخابات کے لیے بلکہ جمہوریت کے لیے ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا، ہمیشہ کے لیے فیصلہ کرنا ہو گا کہ عدالت کون سے معاملات سن سکتی ہے، عدالت صرف آئینی معاملات کی تشریح کرنے کے لیے بااختیار ہے، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے کرنے والے کام کیوں کرے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی پارلیمنٹ آئے، وہی سارے قانون سازی کے معاملات دیکھے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ ایک دوسرے کے سوالات کے جوابات دینے لگے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں سیاستدان کے کردار پر ڈیکلیئریشن نہیں دیتا، میں کسی کے دل میں جھانک کر نہیں بتا سکتا کہ وہ کیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ لیکن جو کردار سے متعلق آئینی شقیں موجود ہیں ان کا کیا ہو گا؟
’’1973ءکا آئین بنانے والے زیادہ دانشمند تھے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جواب یہ ہے کہ 1973ءکا آئین بنانے والے زیادہ دانشمند تھے، بعد میں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے آئے کہ چلو آئین میں کچھ اور ڈال دو، انہوں نے کہا کہ یہ لوگ سر نہ اٹھالیں، انہوں نے سوچا کہ ایسی چیزیں لاتے ہیں جن سے جس کو جب دل چاہا نااہل کر دیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو اٹھارہویں ترمیم پر پھنسا ہوا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی جگہ آئین میں اگر خاموشی رکھی گئی ہے تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب میں کہتا ہوں کہ میں نے کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرنا تو یہ بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے، پارلیمنٹ آ کر فیصلہ کر لے گی کہ کیا کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل بینچ نے مبشر حسن کیس میں کہا تھا کہ آرٹیکل 62 تنہا پڑھا جائے تو سزا نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر یہ 17 ججز کا فیصلہ تھا تو پھر سمیع اللّٰہ بلوچ کا 5 ججز نے فیصلہ کیسے دے دیا؟ اگر ہم فل کورٹ بیٹھ کر بھی فیصلہ کریں تو مبشر حسن کیس کا فیصلہ بدل نہیں سکتے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ عدالت کو یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہو گئے۔
تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل حضرات نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
محفوظ کیے گئے فیصلے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج تو نہیں مگر جلد ہی مختصر فیصلہ سنائیں گے۔