2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں آزادی پسند مزاح نگار P.J O'Rourke نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو ووٹ دینے کے اپنے فیصلے کی وضاحت ان الفاظ سے کی، ’’وہ بالکل ہر چیز کے بارے میں غلط ہے، لیکن وہ عام پیرامیٹرز کے اندر غلط ہے۔‘‘ O' Rourke کا نظریہ ریپبلکن پارٹی کے زیادہ قریب ہو سکتا ہے لیکن ایک سیاست دان کیلئے کیا معمول کی بات ہے اور کیا نہیں ، اسکے بارے میں ان کے خیال نے انھیں اپنی پسند کی پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو مسترد کرنے پرمجبور کردیا۔
اس بیان کو پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ کیا کچھ پاکستانی بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ ہر ملک میں سیاست میں معمول کا ایک پیرامیٹر ہوتا ہے ۔کیا کرنا یا کیا نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ سیاست دانوں کے تصورات یا خیالات ہوسکتے ہیں جن سے ہم متفق نہیں۔ لیکن ان کا رویہ معمول کے پیرامیٹرز میں آتا ہے۔ پیشہ ور سیاستدان اکثر ان پیرامیٹرز کا احترام کرتے ہیں۔ پیشہ ور سیاستدانوں کی لائی ہوئی مایوسی اور بے کلی ختم کرنے کی امید کے ساتھ مشہور شخصیات سیاست کے اکھاڑے میں دھماکا خیز انداز میں، دھمکیاں دیتی اور ایسے اقدامات کا اعلان کرتے داخل ہوتی ہیں جو انکے ملک کے سیاسی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں۔
کیا پاکستان میں بھی معمول کے رویے کے پیرامیٹرز موجود ہیں؟ اور ایسے پیرامیٹرز کی عدم موجودگی میںکیا انتخابی جمہوریت مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہے؟ جب ملک براہ راست فوجی حکمرانی کے تحت نہیں ، پاکستان کا سیاسی نظام چار تقریباً متوقع مراحل میں کام کرتا ہے۔پہلے مرحلے میں ایک سیاست دان ایسے الیکشن میں منتخب ہوتا ہے جسے اسکے مخالفین ہیرا پھیری سمجھتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میںاس لیڈر کو برطرف یا عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے، اس کے بعد تیسرے مرحلے میں وہ مستقبل کے انتخابات سے نااہل ہو جاتا ہے۔ چوتھا مرحلہ اس وقت آتا ہے جب کبھی مقبول، منتخب لیڈر کو مختلف الزامات لگا کر گرفتار کیا جاتا ہے ۔
یہاں تک کہ منتخب ہونا، برخاست ہونا، نااہل قرار پانا اورگرفتار ہونے کے اس چکر میں بھی سیاست دان ایسا طرزعمل اپنا سکتے ہیں جو انھیں اقتدار میں واپس آنے کے قابل بناتا ہے۔ ان لوگوںکیلئےجو ان سے متفق نہیں ، یہ عام پیرامیٹرز کے اندر غلط تصور کیا جائے گا۔ لیکن ایک مشہور شخص اپنی 'زبردست مقبولیت کو موجودہ سیاسی نظام کا تختہ الٹنے کے ہتھیار کے طور پردیکھ سکتا ہے۔ معمول کے پیرامیٹرز سے ہٹ کر کام کرنے کا یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کے پرستاروں اور کلٹ کی پوجا کرنے والوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ بہت سے لوگوں کو ناپسند بھی ہے جو ہلچل اور ہنگامے کو پسند نہیں کرتے ۔
پاکستان کے سیاست دانوں کو معمول کی سیاست کے پیرامیٹرز طے کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ خود آگاہی پیدا کرنے اور عاجزی کی قدر کو پہچاننے پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی حمایت اور مقبولیت جوش کو دعوت دیتے ہیں۔ جوش کسی کو بھی دیوانہ بنا سکتا ہے۔ وہ تنقید کو دشمنوں کا کام سمجھ کر دوٹوک انداز میں مسترد کر سکتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے( گرچہ اس کا کوئی ثبوت نہیں) کہ رومی شہنشاہوں نے اپنے شاندار ترین لمحات میں موت کو یاد رکھناضروری سمجھا۔ فاتحانہ پریڈ میں، کوئی شہنشاہ کے پیچھے کھڑا تھا، اسے مسلسل یاد دلا رہا تھا، ’اپنے پیچھے دیکھو۔ یاد رکھیں کہ آپ ایک انسان ہیں ۔‘
ایسی احتیاط صرف رومی شہنشاہوں تک محدود نہیں تھی۔ ہندوستان کے بانیوں میں سے ایک، جواہر لعل نہرو نے 1937 ءمیں خود پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا اور اسے چانکیہ کے نام سے گمنام طور پر شائع کیا تھا۔ مضمون میں نہرو کی ہجوم میں پذیرائی کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت، وقار اور اثر و رسوخ کے بارے میں بات کی گئی۔ لیکن اس نے مزید کہا، ’’جواہر لال جیسے افراد، عظیم اور اچھے کام کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجودجمہوریت کیلئے ایک خطرہ ہیں۔ وہ خود کو ڈیموکریٹ اور سوشلسٹ کہتا ہے ۔لیکن ہر ماہر نفسیات جانتا ہے کہ دماغ بالآخر دل کا غلام ہوتا ہے اور یہ منطق ہمیشہ انسان کی خواہشات اور تمنائوں کا احاطہ کرتی ہے۔ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ جواہر لال ڈکٹیٹر بن سکتے ہیں۔‘‘
نہرو نے آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں اور اپنے طویل دور میں (1947-1964)، انہوں نے کبھی آمر کی طرح کام نہیں کیا۔یقیناً نہرو کو آئینی جمہوریت میں کامیاب ہندوستانی تجربے کی بنیاد رکھنے کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اسکے خود مختار رجحانات کے بارے میں آگاہی، جس کی نشاندہی اس نے اپنے بارے میں لکھے گئے مضمون میں کی ہے، نہرو کو آمرانہ اختیارات کے استعمال کے لالچ کی مزاحمت کرنے پر مجبور کیا۔
برسوں بعد، جب نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے، نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار سی ایل سلزبرگر نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی انھوں نے خود پر تنقید کرتے ہوئے اس تحریر کو لکھا ہے۔ ’’ہاں،‘‘ نہرو نے تسلیم کیا، ’’میں نے اسے تفریح کیلئے لکھا، ایک خاتون دوست کو بھیجا جس نے اسے شائع کیا ۔ کسی نے اندازہ نہیں لگایا کہ میں مصنف ہوں۔ گاندھی یہاں تک کہ ناراض تھے، یہ سوچ کر کہ کوئی دشمن مجھ پر حملہ کر رہا ہے۔ ‘‘سلزبرگر نے پوچھا کہ کیا نہرو کے خیال میں ان کا اپنے کردار کے بارے میں تجزیہ درست تھا۔ نہرو نے جواب دیا: ’’میرا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے اندر ایسی کمزوریوں کو دیکھ کر ان پر بحث کرے تو یہ پیشگی ثبوت ہے کہ وہ کبھی ان کے سامنے سرنگوں نہیں ہو گا۔‘‘
ایک یا دو مستثنیات کے ساتھ پاکستان کے موجودہ رہنما اپنی غلطیوں، خامیوں یا منفی رجحانات کو عوامی سطح پر تسلیم نہیں کرتے۔ اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ وہ نجی طور پر بھی ایسا کرتے ہیں۔ پاکستان کا ’مولا جٹ‘ سیاسی کلچر ہر ایک کو اپنا بگل بجانے اور اپنی عظمت کا اعلان کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں بھی ایسے بدمعاشوں کی کمی نہیں، جو خاندانوں اور عوام الناس کی شان و شوکت کے فریب کو تقویت دیتے ہیں۔ مشہور شخصیات اکثر نرگسیت کا شکار ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں پیشہ ور سیاست دانوں کو بھی ان کی موت کی یاد دلانے والا کوئی نہیں۔ان سے وہ پیرامیٹرز طے کرنے کو کہنے کے علاوہ جس میں وہ ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے، اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ، اپنے اقتدار کے حصول کیلئے، پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو نہرو کے 1937ءکے چانکیہ کے مضمون کی طرح ایک خودکار تنقید لکھنے کیلئے بھی کہا جانا چاہیے۔ صرف وہی لوگ اپنی کمزوریوں کو پہچاننے کے خواہشمند ہوں گے جو پہلے سے مشکلات میں گھری ہوئی قوم کو ان کمزوریوں کا شکار نہیں کرتے۔