• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک … وجاہت علی  خان
اپنے ایک بیان میں پاکستان کے ایک عالم دین جاوید احمد غامدی نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں ان تمام اقدامات یا چیزوں کا ذکر واضح انداز میں موجود ہے جو ممنوع یا حرام قرار دی گئی ہیں تاہم موسیقی سے متعلق قرآن میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔ سابق امام کعبہ شیخ عادل الکلبانی کا بھی کہنا ہے کہ موسیقی کے آلات اور گانا حرام نہیں ہے، کینیڈا میں مقیم مسلم مبلغ اور اسلامک انفارمیشن اینڈ دعویٰ مرکز کے صدر ڈاکٹر شبیر علی کے مطابق قرآن میں موسیقی یا گانے کے حرام ہونے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں ہے جب کہ کسی مصدقہ حدیث میں بھی ایسے کسی حکم کی روایت نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بعض روایتوں کی وجہ سے مسلم دنیا میں موسیقی کو حرام سمجھا جاتا رہا اور تب کے معاشرے میں موسیقی سے اجتناب میں آسانی کی بنا پر اس پر عمل بھی ہوتا رہا، تاہم قرآن یا حدیث میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف بعض مسلمان دینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گو کہ قرآن میں موسیقی کے حرام ہونے سے متعلق کوئی واضح یا دو ٹوک حکم تو موجود نہیں تاہم بعض روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ موسیقی سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ مسلمان علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کے دور میں استعمال ہونے والے آلات موسیقی تو جائز ہیں تاہم جدید دور کے آلات بجانا حرام ہے۔ تاریخ پر نظر کریں تو قرون وسطیٰ کے قدیم مذاہب سے لے کر ان کے بعد سامنے آنے والے مذاہب تک موسیقی نے مذہبی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ موسیقی ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کا بہترین ذریعہ ہے، میری نگاہ میں بین الثقافتی انضمام کو ممکن بنانے کے لئے موسیقی سے اچھا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ زیادہ دلچسپ امر یہ تحقیق ہے کہ کیا موسیقی کے آلہ جات کے بغیر دی جانے والی صدا کو موسیقی کہا جا سکتا ہے؟ کيا اذان جسے مسلمان موسیقی کا حصہ نہیں کہتے، دراصل موسیقی ہی ہے۔ اس میں ایک نغمگی، ایک ترنم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اسلامی ممالک مثلاً مصر میں قران کی تلاوت مقامات کے ساتھ کی جاتی ہے، مقامات عرب ثقافت میں روحانی موسیقی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ قران کی تلاوت دنیاوی موسیقی سے بالکل مختلف ہے تاہم اس کے پڑھنے کے انداز میں ایک خاص موسیقیت پائی جاتی ہے، پورے قرآن کی قرأت ایک مقام میں نہیں بلکہ حصوں میں کی جاتی ہے، تاہم عیسائیت میں مقدس کتاب بائبل کو قرآن کی طرح شروع سے آخر تک نہیں پڑھا جاتا بلکہ مخصوص حصے پڑھے جاتے ہیں لیکن یہودیوں کے ہاں بھی مسلمانوں کی طرح ان کی مقدس کتاب تورات کو شروع سے آخر تک پڑھنے کی روایت پائی جاتی ہے تاہم مختلف لہجے اور آہنگ کے ساتھ، مجھے تو لگتا ہے کہ موسیقی مذہب کو پُر کشش بناتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے مذہب سے بھی قریب آتے ہیں اور یہ کشش انسانی احساس اور جمالیاتی حس کو بڑے لطیف انداز میں متاثر کزتی ہے، قبل اس کے کہ کوئی بھی عقیدہ یا مذہب زبانی یا تحریری الفاظ کی شکل میں جلوہ نما ہو، موسیقی کہیں محض آلات سے نکلنے والی صداؤں اور کبھی میوزک کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی کی شکل میں انسانی روح اور حس کو چھو لیتی ہے۔ روحانی موسیقی اور مراقبے کے ضمن میں مغرب میں سب سے زیادہ شہرت مولانا جلال الدین رومی کو حاصل ہے۔ جیسا کہ ہر مذہب میں تصوف کا نظریہ اور صوفی طریقت پائی جاتی ہے۔ عیسائیوں میں بھی اس کی روایت قدیم ہے۔ اس کی بہت زیادہ تفصیلات تو مجھے معلوم نہیں ہیں تاہم کرسچن مونکس یا راہب، جنہیں درویش بھی کہا جا سکتا ہے، یہ بھی مراقبے میں ورد کرتے ہیں۔ کبھی کبھی موسیقی کی دھن سنتے اور خاموشی سے عبادت کرتے ہیں۔ خدا کے ذکر میں ڈوب جاتے ہیں۔ مسلم صوفیاء میں بھی بالکل یہی تصور پایا جاتا ہے، خدا کا قرب حاصل کرنے اور اس کی یاد میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجانے کا۔ ان کے ذکر کی محافل کو عیسائی راہبوں کے مراقبے سے ملتا جلتا قرار دیا جا سکتا ہے، حصول آزادی کے ساتھ ساتھ برصغیر کے باشندوں کو تقسیم جیسے سانحہ سے بھی گزرنا پڑا اور 14؍اگست 1947میں پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی مملکت معرض وجود میں آگئی، اس نومولود مملکت کے پاس جغرافیہ تو تھا لیکن اس کی اپنی کوئی تاریخ نہ تھی، غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کو بھی اپنی جغرافیائی اور سیاسی مجبوریوں کی بنا پر قبول کرنا اس کے لیے ممکن نہ تھا، اسی طرح ادب اور ثقافت کے مسائل بھی دشوار تھے، ابھی زیادہ دور کی بات نہیں برصغیر کے معاشرے میں گانے والوں کو میراثی، بھانڈا اور ڈوم کہا جاتا تھا اور میراثیوں کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ معزز لوگوں کے ساتھ کسی چارپائی یا کرسی پر بیٹھیں بلکہ انہیں نیچے بیٹھنا پڑتا تھا، آج میراثیوں کو فنکار اور گلوکار کا نام دیا جاتا ہے اور ان کی ایسی آؤ بھگت کی جاتی ہے جو کسی بڑے سے بڑے عالم دین اور بزرگ کی بھی نہیں ہوتی، ہمارے ملک پاکستان میں اگر ہندوستان کا بھی کوئی مشہور میراثی آ جاتا ہے تو پوری قوم نیچے سے لے کر اوپر تک دیدہ و دل فراش راہ کر دیتی ہے بہت سے خوف خدا سے عاری لوگ بڑے فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ جناب موسیقی روح کی غذا ہے ،ممتاز صوفی بزرگ حضرت داتا علی ہجویریؒ کی کتاب کشف المعجوب میں لکھا ہے کہ موسیقی نہ تو حلال ہے اور نہ حرام جو موسیقی اللہ کے قریب کر دے وہ حلال ہے اور جو اللہ سے دور کرے وہ موسیقی حرام ہے۔ موسیقی کے موضوع پر تاریخ کے مختلف ادوار سے ہوتے ہوئے زمانہ جدید تک آتے ہیں کہ موسیقی کو بہت سے لوگوں نے غلط کیوں سمجھا ہے اور کچھ احادیث میں موسیقی کے بارے میں ممانعت کا ذکر کیوں آیا ہے؟ مثال کے طور پر اگر پوچھا جائے کہ کھانا کھانا حرام ہے یا حلال؟ جواب ہوگا بے شک حلال ہے لیکن اگر آپ سب کے سامنے اپنی بیوی کے ساتھ برہنہ حالت میں کھائیں گے تو حرام ہے، مذہبی موسیقی میں استعمال ہونے والے آلات کی ایجاد مشرق میں ہوئی ہو یا مغرب میں، یہ آلات بڑی حد تک دونوں مذہبی ثقافتوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ صوفیاء کرام نے موسیقی کو دین کے فروغ کے لیےاستعمال بھی کیا اور بہت سے آلات موسیقی بھی ایجاد کیے، جیسا کہ امیر خسرو نے بنایا، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی آلہ موسیقی بنایا۔ جس صنف موسیقی و شاعری کو آج ہم قوالی کا نام دیتے ہیں پرانے وقتوں میں یہ کلام ’’قول علی‘‘ کے نام سے بیان کیا جاتا تھا ،آج وہ ’’قول علی‘‘ بدل کر قوالی ہو گیا ہے۔ ہندو قوم موسیقی کی بڑی دلدادہ تھی، موسیقی کا شغف رکھنے والا ہر شخص تان سین کا نام جانتا اور آج بھی آپ دیکھ لیں ان کی فلم انڈسٹری میں بہترین گانے والےفنکار موجود تھے اور ہیں بھی، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، کشور کمار، طلعت محمود، محمد رفیع وغیرہ ان کا فن ان کی کلا اپنی انتہا کو پہنچا، اس قوم میں موسیقی کا شوق ہے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ جن کا اجمیر شریف میں مزار ہے، انہوں نے ہندوؤں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے موسیقی کے ساتھ ذکر اللہ اور نعتیں شروع کیں، ان کی نیت یہ تھی کہ ایک چیز ان کی من پسند لگا کر اس میں اللہ کا نام شامل کر دو جس سے وہ اس طرف راغب ہوں۔ اگر شریعت کی رو سے اس کا موازنہ کریں تو یہ عمل بدعتِ حسنہ کہلائے گا۔ بدعت حسنہ یہ ہے کہ وہ چیز پہلے نہیں تھی لیکن بعد میں کسی صوفی نے شروع کی اور یہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے اچھی اس لیے ہوئی کہ اگر وہ یہ طریقہ استعمال نہ کرتے تو اُن کے دور میں 90 لاکھ ہندو مسلمان نہ ہوتے۔ وہ پالیسی جس کے ذریعے نوے لاکھ ہندوؤں نے اسلام اختیار کر لیا یہ بدعت بُری کیسے ہو سکتی ہے۔ تو یہ بدعت حسنہ ہے۔ دین میں بہت سی بدعات موجود ہیں جن کی وجہ سے دین میں اچھائی آئی ہے لہذا اُن کو تسلیم کر لیا گیا جیسا کے لاؤڈ سپیکر کا معاملہ ہے، ایک بہت لمبے عرصہ تک یہ بات چلی تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان دینا جائز نہیں، اب یہ آپ ہی کی آواز ہے اگر بجلی کی مدد سے آگے جا رہی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر پہلے عمل نہیں کیا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ چیزیں عمل میں آتی چلی گئیں اور جن کی وجہ سے کسی کا ایمان بگڑا نہیں سدھر گیا تو وہ چیزیں بدعت حسنہ کہلاتی ہیں۔ کشف المعجوب میں سید علی ہجویریؓ المعروف داتا صاحب نے موسیقی کے باب کے علاوہ ایک باب اور بھی قائم کیا ہے جس کا نام ’’سماع‘‘ ہے، سماع عربی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں عربی سے ماخوذ ہے۔ سماع سے مراد وہ حال یا وجد ہےجو راگ یا قوالی سن کر آتا ہے سماع کی تعریف میں چشتی بزرگوں نے بہت کچھ لکھا ہے جس کے لئے بڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ یہاں میں سماع کے بارے میں چند باتیں اختصار سے عرض کروں گا۔ سماع کے لغوی معنی ذکر کے ہیں یعنی یاد کرنا۔ تصوف میں بھی سماع کے یہی معنی ہیں، چونکہ سماع کا مفہوم نفس میں موجود ہوتا ہے جس سے سامع پر حسب استطاعت ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سماع کے کئی درجے مقرر کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ سامع کے خیالات و جذبات یکسو ہوکر خدا اور رسول کی طرف رجوع ہو جائیں اور روح میں پاکیزگی پیدا ہوجائے۔ دوسرا اور خاص درجۂ سماع یہ ہے کہ سننے والا ماسوا سے بے خبر ہوجائے اور اللہ تبارک تعالیٰ کے عشق میں گم ہوجائے اور معرفت کے میدان میں پہنچ جائے اصلی سماع یہی ہے۔
یورپ سے سے مزید