لندن (سعید نیازی) برطانیہ میں مہنگائی کی شرح میں گزشتہ برس فروری کے بعد پہلی مرتبہ توقعات کے برعکس اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دسمبر میں مہنگائی کی شرح 4 فیصد رہی جبکہ نومبر میں یہ شرح 3.9 فیصد تھی اور خیال کیا جا رہا تھا کہ دسمبر میں یہ کم ہو کر 3.7فیصد پر آجائے گی۔ اس غیر متوقع اضافہ کی وجہ الکحل اور ٹوبیکو کی قیمتوں میں اضافہ کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ نومبر میں ڈیوٹی میں اضافہ کے سبب 12.8 فیصد اضافہ کے ساتھ 31 برس کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہیں۔ واضح رہے کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کوویڈ لاک ڈائون کے دوران ہی بڑھنا شروع ہو گئی تھیںلیکن روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ان میں مزید تیزی آگئی اوراب بحیرہ احمر میں جہازوں کی روانی میں خلل سے مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ اکتوبر 2022 میں مہنگائی کی شرح 40 برس کی بلند ترین سطح 11.1 فیصد پر پہنچنے کے بعد اسے کم کرنے کیلئے بینک آف انگلینڈ کو متعدد بار شرح سود بڑھانا پڑی جو کہ اب 5.25 فیصد ہے اور لوگوں کیلئے بڑھتی مہنگائی کے سبب گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ تاہم معاشی ماہرین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ رواں برس بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے سبب مہنگائی کی شرح میں تیزی سے کمی واقع ہوگی۔ کیپٹیل اکانومکس کے رتھ گریگوری کے مطابق اپریل میں بینک آف انگلینڈکے ہدف کے مطابق مہنگائی کی شرح 2 فیصد پر آجائے گی۔ جس کے بعد بینک کیلئے جون میں شرح سود میں کمی کرنا ممکن ہوگا۔ چانسلر جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ مہنگائی کی شرح تبدیل ہوتی رہتی ہے، حکومتی منصوبہ کام کر رہا ہے اور ہم اس پر کاربند رہیں گے۔ شیڈو چانسلر ریچل ریوز نے کہا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ خاندانوں کیلئے بری خبر ہے، اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ الیکشن کے بعد شاپنگ کے ہفتہ وار اوسط اخراجات میں 110 پائونڈ کا اضافہ ہوا ہے اور رشی سوناک کے ٹیکس پلان کے تحت ایک اوسط خاندان کو 1200 پائونڈ نقصان کا سامنا ہوگا۔